اسلام آباد: وفاقی وزرا نے پارلیمنٹ لاجز میں گھسنے والے انصار الاسلام فورس کے رضاکاروں کی رہائی پر اپنے تحفظات کا اظہار کردیا ہے۔
تفصیلات کے مطابق سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر دئیے بیان میں وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے کہا کہ جمیعت کے غنڈوں نے کان پکڑ کر معافی مانگ لی اور نکل گئے، انہیں نہیں چھوڑنا چاہیئے تھا۔
فواد چوہدری نے کہا کہ اس واقعے سے جعلی دانشور ایک بار پھر ظاہر ہوگئےجو ‘بغض عمران’ میں جتھوں کی بھی حمایت سے باز نہیں آئے، اپوزیشن اور میڈیا میں ان کے حمایتی ایک مخصوص مافیا کا حصہ ہیں جو اپنے مفادات کے کیلئے اکٹھے ہیں۔
جمیعت کے غنڈوں نے کان پکڑ کر معافی مانگ لی اورنکل گئے(نہیں چھوڑنے چاہئیں تھے) لیکن اس واقعے سے جعلی دانشور ایک بار پھر ظاہر ہو گئےجو بغض عمران میں جتھوں کی بھی حمائیت سے باز نہیں آئے، اپوزیشن اور میڈیا میں ان کے حمائیتی ایک مخصوص مافیا کا حصہ ہیں جو اپنے مفادات کے کیلئے اکٹھے ہیں
— Ch Fawad Hussain (@fawadchaudhry) March 11, 2022
معاون خصوصی شہباز گل نے بھی انصار الاسلام کے جتھوں کو رہا کرنے پر اپنے ردعمل کا اظہار کیا، انہوں نے دعویٰ کیا کہ فضل الرحمان رات بھر ادھر ادھر فون کرتے رہے، معافیاں مانگتے رہے اور کہا کہ میرےبندےچھڑوادیں، میری کچھ عزت رہ جائے گی۔
شہباز گل نے کہا کہ پھر انہوں نے اپنےبندوں سے معافی منگوائی، مولانا کا ایک ہی رات میں سارا بخار اتر گیا، انہیں چھوڑنانہیں چاہئےتھا۔
وزیراعظم کے معاون خصوصی کا مزید کہنا تھا کہ یہ طریقہ سیاسی میدان سے بھاگنے کا ہے، ہم انہیں اس بہانے سیاسی میدان سے بھاگنے نہیں دیناچاہتے۔
فضل الرحمن صاحب رات بھر ادھر ادھر فون کرتے رہے مافیاؤں مانگتے رہے کہ میرے بندے چھڑوا دیں میری کچھ عزت رہ جائے گی۔ پھر اپنے بندوں سے معافی منگوائی۔ ایک ہی رات میں سارا بخار اتر گیا۔ اصلولاً انہیں چھوڑنا نہیں چاہئے تھا لیکن ہم انہیں اس بہانے سیاسی میدان سے بھاگنے نہیں دینا چاہتے
— Dr. Shahbaz GiLL (@SHABAZGIL) March 11, 2022
واضح رہے کہ اسلام آباد پولیس نے جے یو آئی کے گرفتار تمام کارکنان کو رہا کر دیا ہے، کارکنان کو تھانہ آبپارہ سے شخصی ضمانت پر رہا کیا گیا، مولانافضل الرحمان نے کارکنان کی رہائی کیلئے صبح 9 بجے تک کی ڈیڈلائن دی تھی۔
یاد رہے کہ گذشتہ روز پولیس نے انصارالاسلام فورس کو پارلیمنٹ لاجز سے نکالنے کیلئے آپریشن کیا تھا، اس دوران ایم این اے جمال الدین اورصلاح الدین سمیت کئی افراد کو حراست میں لیا گیا جبکہ سینیٹر کامران مرتضیٰ کو حراست میں لینے کے بعد چھوڑ دیا گیا تھا۔