تازہ ترین

حکومت کا ججز کے خط پر انکوائری کمیشن بنانے کا اعلان

اسلام آباد: وفاقی حکومت نے اسلام آباد ہائی کورٹ...

فوجی عدالتوں سے 15 سے 20 ملزمان کے رہا ہونے کا امکان

اسلام آباد : اٹارنی جنرل نے فوجی عدالتوں سے...

’’خدمتِ خلق کا جذبہ کیوں مر گیا؟‘‘

میری بیماری اچھلتی کودتی، چھلانگیں لگاتی ہوئی جب کئی ہفتے عبور کرگئی تو مجھے شک ہونے لگا کہ ڈاکٹر حضرات کو خدمتِ خلق سے کوئی دل چسپی نہیں ہے۔

ان کی حالت اس عورت سے بہتر نہیں ہے جو شوہر کے لیے کھانا تیّار کرتی ہے۔ شام کو سبزی وغیرہ لاتی ہے اور صبح دودھ کے ڈپو کی لمبی قطار میں دو بوتلیں لانے کے لیے اپنی باری کا انتظار کرتی ہے۔ عام اصطلاح میں اسے گرہست کی خدمت کہا جاتا ہے لیکن گرہستن سے پوچھا جائے تو وہ اسے اکتا دینے والی روٹین کا نام دیتی ہے۔

میرا خیال تھا اور افسوس ناک حد تک غلط خیال تھا کہ ڈاکٹر جب مریض کی خدمت کرتے ہیں تو اسے انسانیت کا عروج سمجھتے ہیں۔ لیکن جب میں نے ذرا قریب ہوکر دیکھا تو یوں محسوس ہوا کہ وہ انسانیت سے اکتا چکے ہیں۔ وہ جب مریض کا بلڈ پریشر دیکھتے ہیں یا اس کے ہارٹ، جگر اور پھیپھڑے کی رپورٹ کا مطالعہ کرتے ہیں تو انھیں یوس محسوس ہوتا ہے جیسے آلو چھیل رہے ہوں یا سبزی میں نمک مرچ مسالے کا تناسب پیدا کر رہے ہوں۔

ڈاکٹر سچ مچ ایک انار ہوتے ہیں جس کے ایک سو نہیں ہزاروں بیمار ہوتے ہیں، ہر بیمار سمجھتا ہے یہ انار میرے ہی کھانے کے لیے ہے اور ڈاکٹر کی بے بسی یہ ہے کہ وہ کسی مریض سے یہ بھی نہیں کہہ سکتا ’’دوست! انار کے متعلق تم جو بھی نقطۂ نگاہ بنا لو، میں دخل نہ دوں گا لیکن ظالم! مجھے پانچ منٹ کی تنہائی تو عطا کر دو تاکہ میں خدمتِ خلق سے بلند ہوکر ایک سگریٹ پی سکوں۔‘‘

ایک دن میں نے ایک ڈاکٹر سے پوچھ لیا۔ ’’ڈاکٹر صاحب! آپ کے اندر خدمتِ خلق کا جذبہ کیوں مر گیا؟‘‘

وہ جیسے دو دونی چار کا پہاڑا پڑھتے ہوئے بولا۔ ’’وہ تو اسی دن مرگیا تھا جب میں نے اس اسپتال میں نوکری کے لیے برسوں اپنے گھٹنے اور ماتھا رگڑا۔ ایک نہایت ہی بھونڈے، غیرانسانی شکل کے ڈپٹی منسٹر کو وقت کا جہانگیر اور یوسف کہا تھا۔ انسانیت تو اس سماج کے لیے اچھوت کا درجہ رکھتی ہے۔‘‘

یہ سُن کر مجھے شک ہوا کہ میرے جذبے اچھوت ہیں۔ ڈاکٹر میرے جذبوں کو ہاتھ لگانا نہیں چاہتا۔ وہ صرف اسپتال کے مردہ قاعدے قانون کے چوکھٹے میں گھومے جا رہا ہے۔ اس چوکھٹے کے باہر کی دنیا اچھوتوں کی دنیا ہے۔ اس چوکھٹے میں انسانیت داخل نہیں ہوسکتی۔ ڈاکٹر اس چوکھٹے سے باہر آکر اچھوتوں کو چھونا نہیں چاہتا۔ جو مریض اسپتال میں اس خیال سے داخل ہوتا ہے کہ ڈاکٹر اس کا انتظار کر رہا ہے اور لپک کر مریض کے جسم میں خدمتِ خلق کاانجکشن دے دے گا اور ناچ اٹھے گا۔ ایسے مریض کو چاہیے کہ وہ اچھوت ہی رہے تو اچھا ہے۔ ڈاکٹر کے لیے سب مریض برابر ہیں، سب بور ہیں، سب اچھوت ہیں۔

بھونڈے ڈپٹی منسٹر نے ڈاکٹر سے انسانیت چھین لی۔ اب تو وہ کسی لیڈی ڈاکٹر سے بھی پیار کرنے سے پہلے دیکھ لیتا ہے کہ اس کی تنخواہ کتنی ہے؟

احباب اور رشتے داروں تک میرے وارڈ اور بیڈ نمبر کی باقاعدہ اطلاع پہنچا دی گئی تھی۔ ایک دوست نے خلوص کی بلندیوں پر کھڑے ہو کر مشورہ دیا کہ بیڈ نمبر اخباروں میں چھپوا دیا جائے۔ چھپ جانے کے بعد وہ اپنے فرضِ منصبی سے چھٹکارا پاگئے اور کبھی اسپتال میں نہ آئے۔ باقاعدہ اطلاع کے باوجود (سُنا ہے) یار دوست ایک دوسرے سے پوچھتے پھرتے۔

’’بھائی! فکر صاحب کا بیڈ نمبر کون سا ہے؟‘‘

شروع شروع میں خلوص کے ماروں کی آمد زوروں پر رہی۔ ان کی آمد پر میرا دل بلیوں اچھلتا اور میں پھول جاتا کہ میں بیمار ہوں۔ ہر ملاقاتی یہ جھوٹ بول کر بہت خوش ہوتا ’’جی آپ تو بالکل بھلے چنگے ہیں ورنہ ایسے اعصابی امراض میں تو انسان ہڈیوں کا ڈھانچہ بن جاتا ہے۔‘‘

جوں جوں وہ میرا دل بڑھاتے، میں ہڈیوں کا ڈھانچہ بنتا چلا جاتا۔ لیکن پھر بھی میرا جی چاہتا میری ہڈیوں کی مزید تعداد نمایاں ہوتی چلی جائے تاکہ میں پرسانِ حال کی محبت کے لذیذ جام لنڈھاتا رہوں۔ لیکن معلوم ہوتا تھا کہ میری اس سازشی پلاننگ کا علم احباب اور رشتے داروں کو ہوگیا ہے، آہستہ آہستہ ان کی تعداد کم ہوتی گئی۔ یہاں تک کہ ایک دن نظروں سے بالکل اوجھل ہوگئی اور میرے بیڈ کے پاس صرف چند شیشیاں، ایک میڈیکل چارٹ اور ایک بیوی رہ گئی۔

اور یوں آہستہ آہستہ میں غیر دل چسپ ہوگیا۔ ہمدردی اور خلوص کا سیلاب ایک دم تیزی سے شام کے سورج کی طرح ڈوب گیا۔ یہاں تک کہ ڈوبتی شعاعوں کی سرخی بھی نظروں سے اوجھل ہوگئی اور میں نے پہلی بار محسوس کیا کہ مرض کو عادت نہ بنانا چاہیے۔ اتنی بڑی کائنات ہے اور ایک انسان اس میں ایک بے حد مدھم ہوتا ہوا نقطہ ہے جس سے کوئی لفظ نہیں بنتا، کوئی لکیرنہیں بنتی۔ اس نقطے پر انسانیت اور محبت اور خلوص وغیرہ وغیرہ چیزوں کی بنیاد رکھنا خالی خولی جذباتی پن ہے۔

Comments

- Advertisement -