تازہ ترین

اسرائیل کا ایران پر فضائی حملہ

امریکی میڈیا کی جانب سے یہ دعویٰ سامنے آرہا...

روس نے فلسطین کو اقوام متحدہ کی مکمل رکنیت دینے کی حمایت کردی

اقوام متحدہ سلامتی کونسل کا غزہ کی صورتحال کے...

بیوٹی پارلرز اور شادی ہالز پر فکس ٹیکس لگانے کا فیصلہ

پشاور: خیبرپختونخوا حکومت نے بیوٹی پارلرز اور شادی ہالز...

چمن میں طوفانی بارش، ڈیم ٹوٹ گیا، مختلف حادثات میں 7 افراد جاں بحق

چمن: بلوچستان کے ضلع چمن میں طوفانی بارشوں نے...

ملک کو آگے لے جانے کیلیے تقسیم ختم کرنا ہوگی، صدر مملکت

اسلام آباد: صدر مملکت آصف علی زرداری کا کہنا...

مالی سال 22-2021 کا وفاقی بجٹ کل پیش کیا جائے گا

اسلام آباد: مالی سال 22-2021 کا وفاقی بجٹ کل بروز جمعہ 11 جون 2021 کو پیش کیا جائے گا، بجٹ میں سود کی مد میں ادائیگیوں کے لیے 3 ہزار 105 ارب روپے اور دفاع کے لیے 1330 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔

تفصیلات کے مطابق مالی سال 22-2021 کا وفاقی بجٹ کل پیش کیا جائے گا۔ ذرائع کے مطابق وفاقی بجٹ کا حجم 8 ہزار ارب روپے سے زائد ہے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ سود کی مد میں ادائیگیوں کے لیے 3 ہزار 105 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز دی گئی ہے، دفاع کے لیے 1330 ارب روپے اور ایف بی آر کی ٹیکس وصولیوں کا ہدف 5 ہزار 829 ارب روپے رکھنے کی تجویز دی گئی ہے۔

ذرائع کے مطابق رواں مالی سال برآمدات کا ہدف 26 ارب 80 کروڑ ڈالر اور درآمدات کا ہدف 55 ارب 30 کروڑ ڈالر رکھا جائے گا۔

کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کا ہدف 2 ارب 30 کروڑ ڈالر رکھنے کی تجویز دی گئی ہے جبکہ ترسیلات زر کا ہدف 31 ارب 30 کروڑ ڈالر مقرر ہو سکتا ہے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ گرانٹس کی مد میں 994 ارب روپے اور سبسڈیز کی مد میں 501 ارب روپے مختص کرنے اور جی ڈی پی کا ہدف 4.8 فیصد رکھنے کی تجویز دی گئی ہے۔

رواں سال بجٹ میں افراط زر کا ہدف 8 فیصد، صنعتی شعبے کی ترقی کا ہدف 6.8 فیصد اور مینو فیکچرنگ شعبے کی ترقی کا ہدف 6.2 فیصد رکھنے کی تجویز دی گئی ہے۔

بجٹ میں مجموعی سرمایہ کاری کا ہدف 16 فیصد اور نیشنل سیونگز کا ہدف 15.3 فیصد رکھنے کی تجویز دی گئی ہے۔

ٹیکس چھوٹ اور سبسڈیز

آئندہ مالی سال کے بجٹ میں حکومت نے بڑے ٹیکس ریلیف کی تیاریاں کی ہیں۔ بجٹ میں زراعت، تجارت، صنعت اور آئی ٹی کے لیے بڑی ٹیکس مراعات دی جائیں گی۔

صنعتی شعبے کے لیے خام مال کی 600 ٹیرف لائنز کی درآمد پر ڈیوٹی میں کمی کا امکان ہے، خام مال کی درآمد پر 3 فیصد اضافی کسٹمز ڈیوٹی ختم کرنے کی تجویز دی گئی ہے جبکہ کسٹمز ڈیوٹی کو 11 فیصد سے کم کر کے 3 فیصد تک محدود کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔

بجٹ میں خام مال کی درآمد پر ریگولیٹری ڈیوٹی ختم کرنے اور صنعتی شعبے کے لیے معاون آلات کی درآمد پر ڈیوٹی 20 فیصد سے کم کر کے 3 فیصد کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔

ٹیکسٹائل، ادویات، انجینئرنگ، کیمیکلز، چمڑے، فٹ ویئر، صابن، ٹائر، ڈائپرز، ربر، ایل ای ڈی اور کاغذ کی صنعتوں کو فائدہ ہوگا۔ خام مال کی 24 سو دیگر ٹیرف لائنز کی درآمد پر جزوی ریلیف دینے کی بھی تجویز دی گئی ہے۔ خام مال کی درآمد سے مجموعی طور پر 45 سے 50 صنعتوں کو بھی فائدہ ہوگا۔ خام مال کی درآمد پر ڈیوٹی ریلیف نیشنل ٹیرف کمیشن نے تجویز کیا ہے۔

آئندہ مالی سال کے بجٹ میں اسمگلنگ کے تدارک کے لیے سخت نئے قوانین تجویز کیے گئے ہیں، اسمگل شدہ سامان فروخت کرنے والے تاجروں پر جرمانہ عائد کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔ اسمگل شدہ سامان فروخت کرنے والے تاجروں کی دکان بھی ضبط کی جاسکے گی جبکہ اسمگل شدہ سامان سپلائی کرنے والی گاڑیوں کو بھی ضبط کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔

اسی طرح درآمد کنندہ کے لیے درآمد شدہ سامان کی ان وائس فراہمی لازمی قرار دینے کی تجویز دی گئی ہے، درآمد کنندہ کا لائسنس معطل کرنے سے پہلے مؤقف لینا لازمی قراردینے کی بھی تجویز دی گئی ہے۔

بجٹ میں زرعی پیداوار بڑھانے کے لیے متعدد اقدامات کی تجاویز دی گئی ہیں، کسانوں کو کھاد پر سبسڈی کسان کارڈ کے ذریعے فراہم کرنے، زرعی زمین کی پیداوار بڑھانے کے لیے جپسم کے استعمال پر سبسڈی دینے، گندم ذخیرہ کرنے کے لیے پلاسٹک کے سائلوز متعارف کروانے، پلاسٹک سائلوز کی درآمد پر عائد 36 فیصد ڈیوٹی ختم کرنے، کسانوں کو ڈی اے پی کھاد کے لیے 2 ہزار روپے فی ایکڑ سبسڈی دینے اور زرعی ٹیوب ویلز کے لیے فلیٹ ٹیرف مقرر کرنے کی بھی تجویز دی گئی ہے۔

کرونا لاک ڈاؤن کے دوران انٹرنیٹ اور ای کامرس کا استعمال بڑھ گیا جس کو مدنظر رکھتے ہوئے بجٹ میں ٹیلی کام آلات کی درآمد پر ٹیکس اور ڈیوٹی میں چھوٹ، ٹیلی کام سیکٹر پر عائد ٹیکسز میں کمی اور ٹیلی کام سیکٹر کے لیے جنرل سیلز ٹیکس کی شرح کم کرنے کی بھی تجویز دی گئی ہے۔

بجٹ میں کسٹم اور ریگولیٹری ڈیوٹیز کی شرح کم کر کے 5 فیصد تک لانے کی تجویز دی گئی ہے، ٹیلی کام سروسز پر عائد 17 فیصد فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی میں کمی کی تجویز دی گئی ہے۔ صوبوں کی سروسز پر جی ایس ٹی کی الگ الگ شرح نظام کو پیچیدہ بنا رہی ہے، سندھ میں جی ایس ٹی 13 فیصد ہے، خیبر پختونخواہ اور بلوچستان میں 15 فیصد اور پنجاب میں جی ایس ٹی 16 فیصد ہے۔ چاروں صوبوں میں ٹیلی کام سروسز پر سیلز ٹیکس 19.5 فیصد ہے۔

Comments

- Advertisement -