تازہ ترین

حکومت کا ججز کے خط پر انکوائری کمیشن بنانے کا اعلان

اسلام آباد: وفاقی حکومت نے اسلام آباد ہائی کورٹ...

فوجی عدالتوں سے 15 سے 20 ملزمان کے رہا ہونے کا امکان

اسلام آباد : اٹارنی جنرل نے فوجی عدالتوں سے...

نیا کپتان کون؟ سفارشات چیئرمین پی سی بی کو ارسال

پاکستان کرکٹ ٹیم کا وائٹ بال میں نیا کپتان...

نواز شریف کے خلاف فلیگ شپ ریفرنس حتمی مراحل میں داخل

اسلام آباد: احتساب عدالت میں سابق وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف فلیگ شپ ریفرنس حتمی مراحل میں داخل ہوگیا۔ استغاثہ کے اہم گواہ مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کے سربراہ واجد ضیا کا بیان فلیگ شپ ریفرنس میں بھی مکمل ہوگیا۔

تفصیلات کے مطابق سابق وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف فلیگ شپ ریفرنسز کی سماعت ہوئی۔

سماعت میں مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کے سربراہ واجد ضیا کا چوتھے روز بھی بیان ریکارڈ کیا گیا۔

سماعت کے دوران 17 جولائی 2017 کا قطری شہزادے حمد بن جاسم کو لکھا گیا خط بھی عدالت میں پیش کیا گیا۔ سیکریٹری خارجہ تہمینہ جنجوعہ کا سپریم کورٹ کو خط اور مظہر عباس کا 16 مارچ 2017 کو واجد ضیا کو لکھا ہوا خط بھی پیش کردیا گیا۔

نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے تہمینہ جنجوعہ کے خط پر اعتراض کیا۔ انہوں نے کہا کہ تہمینہ جنجوعہ کیس میں نہ ہی گواہ ہیں نہ ان کا بیان ریکارڈ کیا گیا۔

واجد ضیا نے کہا کہ حمد بن جاسم کے 2 خطوط سی ایم ایز کے ساتھ لگائے گئے۔ ورک شیٹ میں سرمایہ کاری، اخراجات اور منافع کی تفصیل ہے۔ 8 ملین ڈالرکی ادائیگی اور التوفیق کمپنی کا نام ورک شیٹ میں ظاہر کیا گیا۔

انہوں نے بتایا کہ 2001 سے 2003 میں 5041 ملین ڈالر کی 3 ٹرانزیکشن ہوئیں، تینوں ٹرانزیکشن حسین نواز کے نام پر دکھائی گئیں۔ ورک شیٹ میں دکھائی گئی ٹرانزیکشنز کی کوئی رسید نہیں دی گئی۔

واجد ضیا نے کہا کہ حسین نواز نے جے آئی ٹی کے سامنے کہا کہ اسٹیٹمنٹ حسن نواز کو دکھائی تھی، حسن نواز نے جے آئی ٹی کو بتایا انہوں نے کبھی یہ ورک شیٹ دیکھی نہیں۔

خواجہ حارث نے کہا کہ واجد ضیا ورک شیٹ پر انحصار کر رہے ہیں، ورک شیٹ پیش کرنے والے کو کبھی بطور گواہ پیش نہیں کیا گیا۔ التوفیق کمپنی سے کیا گیا لین دین اس کیس سے متعلق نہیں۔

واجد ضیا نے کہا کہ ورک شیٹ میں ایون فیلڈ کے 8 ملین ڈالر کی ایڈجسٹمنٹ دکھائی گئی، حسین نواز نے بتایا 2006 کی سیٹلمنٹ کا کوئی تحریری معاہدہ نہیں۔ حسین نواز نے بتایا 1980 میں 12 ملین درہم کی سرمایہ کاری کا تحریری معاہدہ نہیں۔

خواجہ حارث نے کہا کہ حسین نواز کا بیان قابل قبول شہادت نہیں جس پر واجد ضیا نے کہا کہ حسین نواز کبھی اس عدالت کے سامنے پیش نہیں ہوئے۔ جے آئی ٹی اس نتیجے پر پہنچی کہ ورک شیٹ مصنوعی تھی۔ مصنوعی ورک شیٹ منی ٹریل میں ربط پیدا کرنے کے لیے گھڑی گئی تھی۔

انہوں نے کہا کہ جے آئی ٹی اس نتیجے پر پہنچی کہ قطری شہزادے کے خطوط محض کہانی تھے۔

خواجہ حارث نے کہا کہ واجد ضیا کی ذاتی رائے قابل قبول شہادت نہیں جس پر واجد ضیا نے کہا کہ جے آئی ٹی نے حمد بن جاسم کا بیان ریکارڈ کرنے کے لیے تمام تر کوششیں کیں۔

انہوں نے کہا کہ قطری شہزادے نے کاوشوں کے جواب میں تاخیری حربوں سے کام لیا۔ قطری شہزادے نے پہلے بیان دینے سے ہی انکار کیا، قطری شہزادے نے گارنٹی مانگی کہ انہیں عدالت میں پیش نہیں کیا جائے گا۔

واجد ضیا نے کہا کہ حسن نواز فلیگ شپ اور دیگر کمپنیوں کے قیام کے ذرائع بتانے میں ناکام رہے، حسن نواز نامعلوم ذرائع سے آنے والی رقم کمپنیوں کو بطور قرض دیتے رہے۔ فلیگ شپ کے نیچے قائم کی گئی کمپنیوں کی فنانشل اسٹیٹمنٹ کا جائزہ لیا۔ کمپنیوں کے قرضے، منافع، نقصان اور ٹرانزکشنز پر 2 چارٹ مرتب کیے۔

انہوں نے کہا کہ ٹرانزکشنز سے حسن نواز کی کمپنیوں اور برطانیہ سے باہر رقوم کا پتہ چلا، ٹرانزکشنز سے دو کمپنیوں کے درمیان فنڈز اور لون کا تبادلہ ظاہر ہوتا ہے۔ کیپٹل ایف زیڈ ای نے 2008 میں کوئنٹ پیڈنگٹن کو 615000 پاؤنڈ کا قرضہ دیا۔ کیپٹل ایف زیڈ ای نے 2009 میں کوئنٹ پیڈنگٹن کو اتنا ہی دوبارہ قرضہ دیا۔

واجد ضیا کے مطابق جفزا کی دستاویزات کے مطابق 09-2008 میں نواز شریف چیئرمین تھے، کومبر کی جانب سے کیو ہولڈنگ کو 2007 میں 1.7 ملین پاؤنڈ کا قرضہ دیا گیا۔ کومبر کمپنی حسین نواز کی ملکیت میں ہے۔ حسن نواز نے 10-2009 میں چوہدری شوگر مل کو 87 ملین کا قرضہ دیا۔

جج نے ریمارکس دیے کہ حسن نواز پہلے قرضہ لیتے رہے پھر دینا شروع کردیا۔ واجد ضیا نے بتایا کہ حسن نواز نے 2001 سے 2004 میں کمپنیوں کو 4.2 ملین کا قرضہ دیا۔

احتساب عدالت میں جاری فلیگ شپ ریفرنس میں واجد ضیا کا بیان مکمل ہوگیا۔

سماعت میں سابق وزیر اعظم نواز شریف کی جانب سے آج حاضری سےاستثنیٰ کی درخواست دائر کی گئی جسے منظور کرلیا گیا۔

Comments

- Advertisement -