تازہ ترین

ملک میں معاشی استحکام کیلئےاصلاحاتی ایجنڈےپرگامزن ہیں، محمد اورنگزیب

واشنگٹن: وزیرخزانہ محمد اورنگزیب کا کہنا ہے کہ ملک...

کچے کے ڈاکوؤں کو اسلحہ فراہم کرنیوالے 3 پولیس افسران سمیت 7 گرفتار

کراچی : پولیس موبائل میں جدید اسلحہ سندھ اسمگل...

پاکستان کو آئی ایم ایف سے 6 ارب ڈالر قرض پروگرام کی توقع

وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ...

برطانیہ میں مسلمانوں کو کرائے پرفلیٹ حاصل کرنے میں مشکلات

لندن: برطانوی اخبار کی تحقیق کے مطابق ملک میں مسلم شناخت کے حامل افراد کو کرائے پر فلیٹ حاصل کرنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے، بالخصوص شراکت کی بنیاد پر ان کے لیے مواقع انتہائی محدود ہیں۔

تفصیلات کے مطابق برطانوی اخبار گارجین نے ایک سروے کیا جس کے تحت انہوں نے دو مختلف ناموں سے کرائے پر کمرے حاصل کرنے کی کوشش کی، ایک نام پر اچھا ردعمل آیا جبکہ دوسرے پر ردعمل انتہائی کم تھا۔

گارجین کے مطابق انہوں نے محمد اور ڈیوڈ ، ان دو ناموں سے کرائے پر کمرے شراکت کی بنیاد پر حاصل کرنے کی کوشش کی ۔ ڈیوڈ نام پر خاطر خواہ ردعمل اور پیش کشیں دیکھنے میں آئی جبکہ محمد نام سے کوشش کرنے پر کو ئی خاص ردعمل دیکھنے میں نہیں آیا۔

رہائشی لینڈ لارڈز کی ایسوسی ایشن کا کہنا ہے کہ اس سروے کی بنیاد پر حالات کی واضح تصویر کشید نہیں کی جاسکتی کہ ابھی ہمیں یہ نہیں پتا کہ آیا لوگ ایسا شعوری طور پر کررہے ہیں یا لاشعوری طور پر یہ فعل سرزد ہورہا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ حکومت کی جانب سے کرائے دار کا امیگریشن کی پڑتال کی ذمہ داری مالک مکان پر عائد کی گئی ہے جس کے سبب اکثر مالکان تارکینِ وطن کو جگہ کرائے پر دینے سے گریز کرتے ہیں۔

یاد رہے کہ یہ پہلی بار نہیں کہ برطانیہ میں کسی اقلیتی گروہ کے ساتھ ایسا رویہ رکھا جارہا ہے ۔ سنہ 1950 کی دہائی میں کچھ جائیدادوں کے اشتہار بھی ایسے ہی رویوں کی عکاسی کیا کرتے تھے۔ ایک جملہ جو ان اشتہارات میں بے حد مشہور تھا وہ یہ تھا کہ ’ نو بلیک، نو آئرش ، نو ڈاگز‘ یعنی سیاہ فام، آئرلینڈ کے باشندے اور کتے اس اشتہار میں دلچسپی نہ لیں۔

ماضی میں صورت حال سنگین تھی لیکن اب حالات کافی بدل چکے ہیں ۔گزشتہ سال ایک شخص کو جنوب ایشیائی ممالک سے تعلق رکھنے والے افراد کو اپنی جائیدادیں کرائے پر دینے سے انکار کرنے پر مقدمے کا سامنا کرنا پڑا تھا ، اس نے اپنے اس رویے کی وجہ وجہ ان افراد کے ’کھانوں کی بو‘ قرار دیا تھا۔

تاہم ماہرین ’گارجین‘ اخبار کے اس سروےکو پوری طرح مسترد بھی نہیں کیا اور کہا ہے کہ یہ ایک ایسی صورتحال ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، اس پر تحقیق کرنا ضروری ہے۔

Comments

- Advertisement -