تازہ ترین

حکومت کا ججز کے خط پر انکوائری کمیشن بنانے کا اعلان

اسلام آباد: وفاقی حکومت نے اسلام آباد ہائی کورٹ...

فوجی عدالتوں سے 15 سے 20 ملزمان کے رہا ہونے کا امکان

اسلام آباد : اٹارنی جنرل نے فوجی عدالتوں سے...

فٹبال کے ذریعے خواتین کے حقوق کے لیے سرگرم ۔ افغانستان کی خالدہ پوپل

کابل: ایک ایسا ملک جہاں خواتین کے گھر سے باہر قدم رکھنے کو ’گناہ‘ سمجھا جاتا ہو، وہاں ایک لڑکی کے گھر سے باہر نکلنے، اس کے میدان تک جانے، وہاں فٹبال کھلینے، اور پھر اسے معیوب خیال نہ کرنے کے جرم کو آپ کیا نام دیں گے؟

آپ چاہے اسے جو بھی کہیں، لیکن افغانستان میں ایسی ہی ایک لڑکی کے لیے ’طوائف‘ کا لفظ استعمال کیا گیا، اور خالدہ پوپل اس لفظ کو سننے کی اس قدر عادی ہوچکی ہیں کہ اب انہیں اس لفظ سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔

خالدہ کو یہ لقب ان کے فٹبال کھیلنے کے جرم کی پاداش میں ملا ہے۔ وہ افغانستان میں 2007 میں تشکیل دی جانے والی پہلی خواتین فٹبال ٹیم کی کپتان ہیں اور فی الحال اپنے ملک سے دور جلا وطنی کی زندگی گزار رہی ہیں۔

اپنے بچپن کے بارے میں بتاتے ہوئے خالدہ کہتی ہیں، ’مجھے فٹبال کھیلنے کی تحریک میری والدہ نے دی۔ وہ ایک روشن خیال خاتون تھیں اور انہوں نے ہمیشہ میری غیر نصابی سرگرمیوں کی حوصلہ افزائی کی‘۔

kahlida-2

خالدہ کو کھیلنے کے لیے فٹبال اور جوتوں کی پہلی جوڑی ان کی والدہ نے ہی اپنی جمع پونجی سے خرید کر دی۔

اپنے بچپن میں وہ اپنے خاندان کی دیگر لڑکیوں کے ساتھ گھر کے صحن میں ہی فٹبال کھیلا کرتیں۔ لیکن ابھی وہ گھر سے باہر جا کر بلندیوں کی طرف اڑان بھرنے کا سوچ ہی رہی تھیں کہ افغانستان میں طالبان داخل ہوگئے اور ظلم و جہالت کا ایک نیا دور شروع ہوگیا۔

کھلی فضاؤں میں سانس لینے کی غرض سے خالدہ کچھ عرصہ کے لیے اپنے والدین کے ساتھ سرحد پار کرکے پشاور میں مقیم ہوگئی۔ وہ اس انتظار میں تھے کہ کب طالبان ان کا ملک چھوڑیں اور وہ واپس جا کر نئے سرے سے اپنی زندگی کا آغاز کریں۔

وطن واپسی کے بعد، جب دارالحکومت کابل میں طالبان کا زور کچھ کم تھا، خالدہ اور ان کی والدہ نے لڑکیوں کے اسکولوں میں فٹبال اور دیگر کھیلوں کے کلب قائم کرنے کی تحریک شروع کی۔ اسکولوں میں ان کلبز کے قیام کے بعد افغانستان فٹبال فیڈریشن کے صدر سے ملاقات کی گئی اور ان سے خواتین کی فٹبال ٹیم تشکیل دینے کی درخواست کی گئی۔

مزید پڑھیں: ریو اولمپکس میں شریک پہلی بلوچ خاتون ایتھلیٹ

خوش قسمتی سے اس وقت کے افغانستان فٹبال فیڈریشن کے صدر کریم الدین کریم نے اس تجویز کو قابل عمل سمجھا اور افغانستان کی پہلی خواتین فٹبال ٹیم تشکیل پائی۔

اس ٹیم نے جس میں صرف 4 لڑکیاں موجود تھیں، ابتدا میں مالی مشکلات کے باوجود اپنا سفر جاری رکھا۔ ٹیم میں شامل کھلاڑی روشن خیال اور مہذب خاندانوں سے تعلق رکھتی تھیں اور انہیں اپنے والدین اور خاندان کی پوری حمایت حاصل تھی۔ کچھ ایسی بھی تھیں جنہیں فٹبال کا شوق تھا لیکن خاندان سے اجازت نہ ملنے کے باعث وہ اپنے گھروں کو چھوڑ آئی تھیں۔

افغانیوں کے لیے اس بات کو تسلیم کرنا ذرا مشکل تھا۔

افغانستان سے طالبان کا کنٹرول ختم ہونے کے باوجود ان کی سوچ لوگوں میں سرائیت کر چکی تھی اور لڑکیوں کا کھیلوں کے شعبہ میں جانا انتہائی برا خیال کیا جاتا تھا۔

مزید پڑھیں: صنفی تفریق کو للکارتی مصر کی خواتین بائیکرز

خالدہ پوپل بتاتی ہیں، ’فٹبال کیریئر شروع کرنے کے بعد مجھے اپنے اسکول میں شدید تفریق کا سامنا کرنا پڑا۔ میرے استاد مجھے کلاس سے باہر نکال دیتے تھے صرف اس لیے کیونکہ میں فٹبال کھیلتی تھی۔ مجھے اعتراض تھا کہ اگر مرد فٹبال کھیل سکتے ہیں تو ہم خواتین کیوں نہیں‘۔

وہ بتاتی ہیں، ’لوگ ہم پر کچرا اور پتھر پھینکا کرتے تھے کیونکہ ہم فٹبال کھیلتی تھیں‘۔

کچھ عرصہ بعد خالدہ نے فٹبال کو خواتین کی خود مختاری پر آواز بلند کرنے کے لیے علامتی طور پر استعمال کرنا شروع کردیا۔ وہ کہتی ہیں، ’فٹبال میرے لیے خواتین کے ایک بنیادی حق کی حیثیت اختیار کرگیا۔ اگر مرد اس قسم کے چھوٹے چھوٹے فیصلوں میں خود مختار ہیں، کہ انہیں کہاں جانا ہے، کیا بننا ہے، کیا کھیلنا ہے تو خواتین کیوں نہیں‘۔

k3

وہ بتاتی ہیں، ’طالبان کے دور میں افغان خواتین بھول گئیں کہ وہ انسان بھی ہیں۔ کیونکہ معاشرے نے انہیں انسان سمجھنا چھوڑ دیا۔ خواتین پر طالبان کے قوانین کی خلاف ورزی پر سرعام تشدد کیا جاتا تو بھلا کون انسان ایسے سلوک کا حقدار ہے‘۔

سنہ 2011 میں خالدہ نے بے تحاشہ دھمکیوں کے بعد بالآخر افغانستان چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔ اس بارے میں ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے اپنے خاندان اور زندگی کے درمیان ایک چیز کا انتخاب کیا اور ملک اور خاندان کو مجبوراً چھوڑ دیا۔

اب وہ دنیا بھر میں خواتین کی فٹبال کے لیے کام کر رہی ہیں۔ وہ خواتین کی خود مختاری کے لیے اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یو این وومین سمیت کئی اداروں کی رکن بن چکی ہیں اور اپنی جدوجہد کی داستان سنا کر دنیا کو مہمیز کرتی ہیں۔

وہ کہتی ہیں، ’میری آواز دنیا کی ان تمام خواتین کے لیے بلند ہوگی جو ظلم و جبر کی چکی میں پس کر اپنے انسان ہونے کی شناخت بھی بھول چکی ہیں۔ میں پہلے انہیں ان کی یہ شناخت واپس دلاؤں گی اس کے بعد ان کی شخصیت کی تعمیر کرنے میں ان کی مدد کروں گی‘۔

Comments

- Advertisement -