تازہ ترین

کچے کے ڈاکوؤں کو اسلحہ فراہم کرنیوالے 3 پولیس افسران سمیت 7 گرفتار

کراچی : پولیس موبائل میں جدید اسلحہ سندھ اسمگل...

پاکستان کو آئی ایم ایف سے 6 ارب ڈالر قرض پروگرام کی توقع

وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ...

اسرائیل کا ایران پر فضائی حملہ

امریکی میڈیا کی جانب سے یہ دعویٰ سامنے آرہا...

چونتیسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے کلک کریں

کھڑکی کے بند شیشے پر بارش کے قطرے مسلسل اس طرح گر رہے تھے کہ اس پر بے ہنگم موسیقی کا شائبہ ہو رہا تھا۔ ڈریٹن اسٹیلی نے خاکی اور نیلے رنگ کا بھاری پردہ ہٹا کر منظر دیکھا اور بڑبڑایا: ’’ٹرورو میں ایک اور تکلیف دہ دن۔‘‘

اس نے شیشے سے جھانکتے ہوئے بادلوں کو دیکھنے کی کوشش کی اور پھر بڑبڑایا: ’’کتنی پریشان کن جگہ ہے یہ، نہیں اب تو میں یہاں بالکل نہیں ٹھہرنے والا۔‘‘

وہ اس وقت برطانیہ کی کاؤنٹی کارن وال کے شہر ٹرورو میں اپنے گھر پر تھا۔ سیکڑوں ریتیلے ساحلوں والی یہ کاؤنٹی ایک جزیرے کی مانند ہے۔ ڈریٹن نے پردہ چھوڑ دیا اور باہر سے آنے والی روشنی کا راستہ رک گیا۔ اس نے شدید مایوسی کے عالم میں الماری کھولی اور موٹر سائیکل کی چابیاں ڈھونڈنے لگا۔ کمرے میں جو ہلکی سی روشنی پھیلی ہوئی تھی وہ میز پر رکھے برقی چراغ سے نکل رہی تھی۔ اس پر دھول کی ایک موٹی تہ جم چکی تھی۔ اس نے دیوار گیر آئینے میں نظر آنے والے اپنے سراپے پر ایک طائرانہ نگاہ ڈالی۔ وہ انیس سال کا مضبوط قد کاٹھ کا نوجوان تھا۔ اس کے بال سیاہ اور لمبے تھے جن میں اس کے دونوں کان چھپے ہوئے تھے۔ اس کے کانوں میں دس دس چھلے پڑے ہوئے تھے، اور بازو پر ٹیٹو نقش تھے۔ وہ ایک کھوپڑی تھی جس کی آنکھ میں تیر گھسا ہوا تھا، جو دوسری طرف سے نکل گیا تھا اور اس جگہ سے کھوپڑی ٹوٹ رہی تھی۔اس نے جھلا کر اپنی گندی ٹی شرٹ پھاڑ کر فرش پر پھینک دی۔ وہاں گندے کپڑوں کا ایک ڈھیر جمع ہو گیا تھا، جو کئی ہفتے پرانا تھا۔

’’کیا مصیبت ہے یہاں!‘‘ وہ جھلا کر بڑبڑایا۔ اس کی موٹی گردن میں ایک نیکلس اچانک چمکنے لگا تھا، جس نے اس کی توجہ فوراً کھینچ لی تھی۔ اس نے نیکلس اتار کر ہاتھ میں پکڑ لیا۔ اس میں لگے ستارے کے نو کونوں میں سے ایک کونے سے سیاہی مائل بھورے رنگ کی شعاعیں نکل رہی تھیں۔ ’’پہلے تو کبھی ایسا نہیں ہوا، یہ کیا ہونے لگا ہے یہاں۔‘‘ اس نے ایک جھٹکے سے ایک دراز کھولا، اور محدب شیشہ نکال کر نیکلس کا جائزہ لینے لگا۔ ’’ہونہہ … سیاہ پتھر چمک اٹھا ہے۔‘‘

اس نے محدب شیشہ ایک میز پر پھینک دیا اور اپنے بیڈروم کا دروازہ کھول کر ماں کے پاس آیا اور نہایت بدتمیزی کے ساتھ چیخا: ’’ڈیڈ نے مجھے یہ نیکلس دیا ہے، اس کے ساتھ یہ کیا ہو رہا ہے؟‘‘

اس کی ماں پینی لوپ میک ایلسٹر، ٹی وی روم میں کرسی پر بیٹھی پروگرام دیکھتے ہوئے چائے کی چسکیاں لے رہی تھیں۔ انھوں نے اپنے بیٹے کی آواز ان سنی کر دی۔ وہ آگے بڑھ کر ان کے سامنے کھڑا ہو گیا۔

’’کیا تم بہری ہو، میں کیا پوچھ رہا ہوں۔ اس نیکلس کے ساتھ کیا ہو رہا ہے؟‘‘ اس نے بدتمیزی کی انتہا کر دی۔

پینی لوپ جس طرح اپنے شوہر سے ڈرتی تھیں، اسی طرح بیٹے سے بھی خوف زدہ رہتی تھیں۔ انھوں نے ڈریٹن کے ساتھ آنکھیں نہیں ملائیں اور سر نفی میں ہلا دیا۔

’’اسے دیکھو، تم اس کے متعلق کیا جانتی ہو؟‘‘ ڈریٹن نے اس کی آنکھوں کے سامنے نیکلس لہرایا۔

پینی لوپ نے بدستور نظریں چراتے ہوئے کہا: ’’اچھا یہ … یہ بہت پرانا ہے۔ میں نے جب سے تمھارے باپ سے شادی کی ہے، اسے ہر وقت ان کے گلے میں پہنے دیکھا۔ مجھے نہیں پتا کہ یہ کیا ہے یا اس کے پیچھے کیا کہانی ہے۔ لیکن یہ تو بہت عجیب انداز میں چمک رہا ہے۔ میں نے پہلے اسے اس طرح چمکتے نہیں دیکھا۔‘‘

’’تو تم یہ کہنا چاہتی ہو کہ ڈیڈ نے تمھیں اس نیکلس کے بارے میں کبھی کچھ نہیں بتایا … ٹھیک ہے، تم اس طرح نہیں بتاؤ گی۔‘‘ ڈریٹن کا لہجہ آخر میں خوف ناک ہو گیا۔ پینی لوپ نے اسے ہاتھ اٹھاتے دیکھا تو جلدی سے سمٹ کر چہرہ چھپا لیا اور گڑگڑا کر کہا: ’’مجھے مت مارو ڈریٹن! انھوں نے کبھی ضرورت ہی محسوس نہیں کی کہ مجھے اپنی زندگی کے بارے میں کچھ بتاتے۔ بالکل اسی طرح جس طرح تم محسوس نہیں کرتے۔ ہاں، چھت پر اسٹور روم میں ایک صندوق ہے، میرے خیال میں … ہو سکتا ہے کہ … !‘‘

’’بس بس … یہ کیا احمقانہ پن ہے۔ سیدھی طرح بات کیوں نہیں کر رہی ہو۔ چلو اب مجھے اطمینان کے ساتھ بتاؤ، یہ صندوق کا کیا چکر ہے؟‘‘

وہ بتانے لگیں: ’’میرے خیال میں صندوق اسٹور روم میں پڑا ہے۔ تمھارے باپ شاردو اسٹیلی کے پاس بہت ساری قدیم کتابیں اور کاغذات تھے۔ ان کو اپنے خاندان کی تاریخ سے متعلق بہت زیادہ دل چسپی تھی۔ وہ اس کے متعلق روزانہ کئی گھنٹے مطالعہ کرتے تھے۔ ہو سکتا ہے کہ وہ تمھارے کام کی نکل آئے۔‘‘

’’خاندانی تاریخ! ہونہہ … مجھے اس خاندان کے بارے میں مزید کچھ بھی معلوم کرنے کی کوئی خواہش نہیں۔ چھوڑو ہماری تاریخ کو۔ وہاں ضرور کچھ اور ہے۔‘‘ یہ کہہ کر وہ مڑا اور جاتے ہوئے میز پر دھری طشتری کو لات مارتے ہوئے گرا دیا۔ طشتری میں پینی لوپ کا کھانا سجا تھا، فرش پر چاروں طرف فرائی انڈا، چپس اور پھلیاں بکھر گئیں۔ پینی لوپ خوف زدہ ہو کر ہر طرف پھیلی گند کی حسرت سے دیکھنے لگیں۔ ڈریٹن نے سیڑھیوں پر رک کر دیکھا اور زہر خند لہجے میں بولا: ’’اب کیا سارا دن اسے گھورتی رہو گی یا اسے صاف بھی کرو گی بے وقوف عورت۔ تم میرے راستے میں اپنی چیزیں چھوڑو گی تو ایسا ہی ہوگا!‘‘

پینی لوپ اس کے جانے کا انتظار کرنے لگی اور اس کے جاتے ہی وہ اٹھیں اور باورچی خانے سے ایک بالٹی میں صابن کی جھاگ والا پانی لے کر واپس آ گئیں، اور قالین کے داغ دھونے لگیں۔ اسے گھٹنوں کے جوڑوں میں درد محسوس ہونے لگا۔ بیٹھ کر کام کرنا ان کے لیے بہت مشکل ہوتا تھا کیوں کہ وہ کافی عرصے سے جوڑوں کے درد میں مبتلا تھیں۔ اس کے باوجود انھوں نے کبھی اپنے بیٹے کے سامنے اس کی شکایت نہیں کی۔ دوسری طرف ڈریٹن کے راستے میں جو بھی چیز آتی تھی، وہ اسے لات مار دیتا تھا۔ اب بھی ایسا ہی ہو رہا تھا۔ صندوق اور برتنوں کی آوازیں پورے گھر میں گونج رہی تھیں۔ اس نے چھت کی طرف منھ اٹھا کر کہا: ’’یہ لڑکا بھی بالکل اپنے باپ جیسا ہے، دونوں شیطانی دماغ والے۔‘‘

(جاری ہے….)

Comments

- Advertisement -