جگر کی پیوندکاری کے لیے اب بھارت یا کسی اور ملک جانے کی ضرورت نہیں کیونکہ گمبٹ کے سندھ اسنٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز نے 9 سالہ بچے کا کامیاب لیور ٹرانسپلانٹ کر لیا۔
اے آر وائی کے پروگرام باخبر سویرا میں مہمان بنے سندھ انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز گمبٹ کے پروگرام ڈائریکٹر جنہوں نے اسپتال میں دی جانے والی سہولیات پر تبادلہ خیال کیا۔
انہوں نے بتایا کہ پاکستان میں لیور ٹرانسپلانٹ ممکن ہوگیا اس لیے اب مریضوں کو بھارت یا کسی اور ملک جانے کی ضرورت نہیں ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ادارے میں گردے، جگر اور ریٹینا کی پیوندکاری کے ساتھ عارضہ قلب کا آپریشن کیا جاتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ مریضوں کو عالمی معیار کے مطابق سہولیات دی جاتی ہیں، اسپتال کی کامیابی کا سہرا ڈائریکٹر عبد الرحیم بخش بھٹی کو جاتا ہے جو تُن دہی اور جانفشانی کے ساتھ اپنی ڈیوٹی انجام دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں: پاکستان کڈنی اینڈ لیور انسٹی ٹیوٹ لاہور میں تیسرا لیور ٹرانسپلانٹ آپریشن کامیاب
انہوں نے بتایا کہ سجاول سے تعلق رکھنے والے 9 سالہ عبدالرحمان کو اُس کے والد گود میں اٹھائے او پی ڈی میں دکھانے کے لیے لائے اور بتایا کہ انہیں کراچی کے ایک اسپتال نے ٹرانسپلانٹ کا مشورہ دیا۔
’عبدالرحمان جس وقت اسپتال آیا وہ بے ہوش تھا، ہم نے داخل کیا اور مرض کی نوعیت دیکھنے کے لیے مختلف ٹیسٹ کیے، جن کی رپورٹ میں یہ بات سامنے آئی کہ اُسے کو میٹا بولک نامی بیماری بھی ہے، یہ مہلک مرض چالیس ہزار میں سے ایک بچے کو ہوتا ہے۔‘
ڈاکٹر عبدالرحمان نے بتایا کہ ‘عبدالرحمان کی بیماری پر 25 سے 30 لاکھ روپے کے اخراجات آئے جبکہ بیرونِ ملک میں کم از کم جگر کی بیوند کاری پر 60 سے 80 لاکھ روپے کے اخراجات آتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ عبدالرحمان کے ٹرانسپلانٹ پر خرچ ہونے والی رقم والدین نے نہیں بلکہ ادارے نے ادا کی۔
یہ بھی پڑھیں: بھارت میں میڈیکل سائنس کی تاریخ کا انوکھا ٹرانسپلانٹ
ڈاکٹر عبدالرحمان نے وضاحت پیش کی کہ جگر کی پیوند کاری میں یہ ضروری نہیں کہ خونی رشتہ ہی اپنا لیور عطیہ کرے بلکہ پاکستان میں یہ قانون اعضاء کے کاروبار کی روک تھام کے لیے بنایا گیا، وگرنہ کوئی بھی بالخصوص قریبی رشتے دار جس کے خون کا نمونہ مریض سے میچ کرجائے وہ اپنا جگر عطیہ کرسکتا ہے’۔
انہوں نے بتایا کہ طبی ماہرین کے نزدیک کوئی بھی شخص ڈونر بن سکتا ہے مگر ہم ملکی قوانین کے تحت اہل خانہ کو ہی ترجیح دیتے ہیں۔
ٹرانسپلانٹ کی ضرورت کب پیش آتی ہے؟
ڈاکٹر عبدالرحمان نے بتایا کہ پیوند کاری کی ضرورت اُس وقت پیش آتی ہے جب جگر مکمل طور پر کام کرنا چھوڑ دے، اگر بیس فیصد بھی کام کررہا ہوتا ہے کہ ٹرانسپلانٹ کی ضرورت پیش نہیں آتی۔