مرزا غالب گرچہ غیرمحتاط زندگی گزارتے ہیں مگر آس پاس سے پوری طرح باخبر رہتے ہیں۔ مغربی تہذیب کے زوال پر ماتم بھی کرتے ہیں۔ ان کے اندر ایک طرح کا طنطنہ ہے اور خودداری کا مادّہ بھی۔ انسانی رشتوں کا انہیں بے حد پاس ہے۔ جب بھی کوئی واقعہ یا سانحہ ان کی افتاد طبع کے منافی وقوع پذیر ہوتا ہے، ان کے احساس لطیف کو صدمہ پہنچتا ہے۔
غالب ۱۸۵۷ء کی ناکام جنگ آزادی (جسے انگریزوں نے غدر سے موسوم کیا) کے بارہ برسوں بعد تک حیات رہے۔ اس درمیان اپنے دوستوں اور شاگردوں کو اردو میں بہت سے خطوط لکھے۔ ان خطوط میں ان کی نجی زندگی کے واضح نقوش ملتے ہیں۔ ساتھ ہی محلے، آس پاس اور ملک کے کوائف بھی مذکور ہیں، بالخصوص انقلاب سے پیدا شدہ پُرآشوب ماحول کا ذکر غالب کے خطوط میں پوری طرح ہوا ہے۔
ڈاکٹر خلیق انجم نے ایک جگہ لکھا ہے:
’’جب تک ہندوستان کا پلہ بھاری رہا، غالب قلعے جاتے رہے اور جب ہندوستانیوں کو شکست ہوگئی تو غالب انگریزوں کے ساتھ ہوگئے۔‘‘
(غالب کے خطوط، جلد اول ص:۲۱۵)
دراصل مرزا کو غم تھا کہ ۱۸۵۷ء کی ناکام جنگ آزادی میں جان و مال و ناموس و مکان و آسمان و زمین و آثار ہستی سراسر لٹ گئے۔ اس صورت حال میں غالب جیسے وسیع القلب کا محض قلعے اور دربار شاہی کی تباہی کا ماتم کرنا کسی طرح مناسب نہیں معلوم ہوتا۔ ان کے خطوط میں بیشتر مقامات پر عزیزوں، احباب اور شاگردوں (بلا امتیاز مذہب) کے قتل ہونے پر اظہار غم ملتا ہے۔ مرزا یوسف کے نام ایک خط کا اقتباس:
’’میرا حال سوائے میرے خدا اور خداوند کے کوئی نہیں جانتا… میں قلعہ نامبارک سے قطع نظر کرکے اہل شہر کو گنتا ہوں۔‘‘
اس کے بعد اسی خط میں جاں بہ حق ہونے والے کئی عزیزوں اور احباب کے نام گنوائے ہیں۔ آگے چل کر مرزا شدت غم کا اظہار حلفیہ طور پر یوں کرتے ہیں:
’’کہنے کو ہر کوئی ایسا کہہ سکتا ہے مگر میں علی کو گواہ کرکے کہتا ہوں کہ اموات کے غم میں اور زندوں کے فراق میں عالم میری نظر میں تیرہ و تار ہے۔‘‘
یہی ہے مرزا کا وہ المیہ کردار جو ان کے خطوط میں جگہ جگہ ابھر کر ہماری توجہ مبذول کراتا ہے۔ یہ المیہ کردار اپنے اندر ہمہ گیریت اور آفاقیت رکھتا ہے۔ یہ کردار اگر بہادر شاہ ظفر کی گرفتاری پر خوب خوب ماتم کرے اور دوسرے اعزا و اقارب کی تباہی پر سرسری ’’آہ‘‘ بھرتا ہوا گزر جائے تو اس کی آفاقیت اور وسیع المشربی بے معنی ہوجاتی ہے۔
غالب کے نزدیک انسانی رشتوں اور جذبوں میں یکسانیت ہے۔ کوئی خط امتیاز قائم کرنا مشکل ہے۔ غالب کا یہ المیہ کردار غدر کے بعد کی تباہی پر رنج و ملال کی کیفیت کا اظہار کرتا ہے اور کس شدو مد اور پُرخلوص جذبے کے ساتھ کرتا ہے، اس ضمن میں منشی ہر گوپال تفتہ کے نام ایک خط کا اقتباس دیکھیے:
’’یہ کوئی نہ سمجھے کہ میں اپنی بے رونقی اور تباہی کے غم میں مرتا ہوں۔ جو دکھ مجھ کو ہے، اس کا بیان تو معلوم مگر اس بیان کی طرف اشارہ کرتا ہوں۔ انگریز کی قوم میں سے جو ان رو سیاہ کالوں کے ہاتھ سے قتل ہوئے، اس میں کوئی میرا امید گاہ تھا اور کوئی میرا شفیق اور کوئی میرا دوست اور کوئی میرا یار اور کوئی میرا شاگرد۔ ہندوستانیوں میں کچھ عزیز، کچھ دوست، کچھ شاگرد، کچھ معشوق، سو وہ سب کے سب خاک میں مل گئے۔ ایک عزیز کا ماتم کتنا سخت ہوتا ہے جو اتنے عزیزوں کا ماتم دار ہو اس کو زیست کیوں کر نہ دشوار ہو۔ ہائے! اتنے یار مرے کہ جو اب میں مروں گا، تو میرا کوئی رونے والا بھی نہ ہوگا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔
(جون، جولائی ۱۸۵۸ء۔ غالب کے خطوط، مرتب: خلیق انجم ص: ۲۱۷)
اس المیہ کردار کی وسیع المشربی اور آفاقی دوست داری کے ثبوت میں یہ مذکورہ اقتباس بہ ہر نوع ثبوت پیش کرتا ہے۔ اس المیہ کردار کا ایک ہی مسلک ہے جو انسانی رشتے کی بنیاد پر قائم۔ میر مہدی مجروح کو خط لکھتے ہیں تو غالب ہلکا طنز بھی کرتے جاتے ہیں:
’’خلاصہ میری فکر کا یہ ہے کہ اب بچھڑے ہوئے یار کہیں قیامت ہی کو جمع ہوں، سو وہاں کیا خاک جمع ہوں گے؟ سنی الگ، شیعہ الگ، نیک جدا، بد جدا۔‘‘
یہ المیہ کردار اسے گوارا نہیں کرتا کہ آخرت میں بھی احباب مسلکی بنیاد یا نیک و بد ہونے کی بنیاد پر الگ الگ جماعتوں میں بٹ جائیں۔ اس کردار کے نزدیک تمام مسلکوں کی معراج انسانیت پر موقوف ہے۔ اسی ضمن میں غالب کا یہ شعر پیش کیا جاسکتا ہے جو بہ ظاہر کچھ نقادوں کی نظر میں ایک ظریفانہ شعر ہے۔ میں اسے نہایت ہی عالی فکر کا نتیجہ جانتا ہوں:
طاعت میں تار ہے نہ مے و انگبیں کی لاگ
دوزخ میں ڈال دو کوئی لے کر بہشت کو
غالب کا یہ المیہ کردار سماجی اور انسانی رشتوں میں یقین رکھتا ہے بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ انہی رشتوں سے غالب میں جینے کی آرزو پیدا ہوتی ہے۔ غالب کا یہ المیہ کردار درّاک اور حساس ہے۔ اس کی آنکھ میں دلی کی ادبی اور تہذیبی فضا کی تصویر بسی ہے۔ وہ خون کے آنسو روتا ہے مگر جب مکتوب الیہ سے محو گفتگو ہوتا ہے تو اس میں طنز اور شوخی کا امتزاج ہوتا ہے۔ میر مہدی مجروح کو ۲۳؍ مئی ۱۸۶۱ء میں لکھتے ہیں:
’’او میاں سید زادۂ آزادہ، دلی کے عاشق دلدادہ۔ ڈھئے ہوئے اردو بازار کے رہنے والے، حسد سے لکھنؤ کو برا کہنے والے۔ نہ دل میں مہر و آزرم، نہ آنکھ میں حیا و شرم، نظام الدین ممنون کہاں، ذوق کہاں، مومن خان کہاں۔ ایک آزردہ سو خاموش، دوسرا غالب وہ بے خود و مدہوش، نہ سخن وری رہی نہ سخن دانی، کس برتے پر تتا پانی؟ ہائے دلی! وائے دلی! بھاڑ میں جائے دلی!‘‘
دلّی کی تباہی سے متعلق اور بھی مثالیں موجود ہیں مگر یہاں اکتفا کرتے ہوئے اس المیہ کردار کا تعلق اپنے دوستوں اور شاگردوں کے لیے تعزینی کلمات کے ضمن میں دیکھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ جب کسی کا انتقال ہوتا ہے تو اس کی تعزیت ضرور کی جاتی ہے مگر یہ المیہ کردار اپنی زبردست قوت ارادی بھی ثابت کرتا ہے۔ مرزا ہر گوپال تفتہ کی بیوی کے انتقال پر یوں تعزیت کی جاتی ہے:
’’تمہارا خط پہنچا۔ مجھ کو بہت رنج ہوا۔ واقعی ان چھوٹے لڑکوں کا پالنا بہت دشوار ہوگا۔ دیکھو میں بھی تو اسی آفت میں گرفتار ہوں۔ صبر کرو اور صبر نہ کرو گے تو کیا کرو گے۔ کچھ بن نہیں آتی۔‘‘
اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ خود غالب بھی ذاتی طور پر اسی نوع کے سانحے سے دوچار ہوئے تھے۔ اس کی وضاحت میاں داد خاں سیاح کے نام ایک تعزینی خط کے اقتباس سے ہوتی ہے۔ ملاحظہ کیجئے:
’’تمہارے ہاں لڑکے کا پیدا ہونا اور اس کا مر جانا معلوم ہو کر مجھ کو بڑا غم ہوا۔
اس داغ کی حقیقت مجھ سے پوچھو کہ اکہتر برس کی عمر تک سات بچے پیدا ہوئے۔ لڑکے بھی اور لڑکیاں بھی اور کسی کی عمر پندرہ مہینے سے زیادہ نہیں ہوئی۔ تم ابھی جوان ہو۔ حق تعالیٰ تمہیں صبر اور نعم البدل دے۔‘‘ (۲۵؍اگست ۱۸۶۷)
یہ المیہ کردار اور دلچسپ اور لائق توجہ ہوجاتا ہے جب اپنی الم ناک زندگی کا نقشہ یوں پیش کرتا ہے:
’’قبلہ حاجات! میرا حال کیا پوچھتے ہیں۔ زندہ ہوں مگر مردے سے بدتر۔ مرزا پور کیا آؤں، اب سوائے سفر آخرت اور کسی سفر کی نہ مجھ میں طاقت ہے نہ جرأت۔ جوان ہوتا تو احباب سے دعائے صحت کا طلب گار ہوتا۔ بوڑھا ہوں، دعائے مغفرت کا خواہاں ہوں… حوادث زمانہ و عوارض جسمی سے نیم جاں ہوں۔ اس سرائے فانی میں اور کچھ دنوں کا مہمان ہوں:
ہو چکیں غالب بلائیں سب تمام
ایک مرگ ناگہانی اور ہے‘‘
اس خط میں خالص ذاتی کرب و الم کی عکاسی ہے۔ انتقال سے دوچار سالوں قبل سے ہی اس طرح کے خیالات مرزا کے خطوط میں ظاہر ہونے لگے تھے۔ کبھی مضمحل قویٰ کا ذکر تو کبھی حواس کے مفقود ہونے کا۔ اپنے شاگرد رشید منشی ہر گوپال تفتہ کو لکھتے ہیں:
’’میں ناتواں بہت ہوگیا ہوں، گویا صاحب فراش ہوں۔ کوئی شخص نیا تکلف کی ملاقات کا، آجائے تو اٹھ بیٹھتا ہوں، ورنہ پڑا رہتا ہوں۔ لیٹے لیٹے خط لکھتا ہوں۔ لیٹے لیٹے مسودات دیکھتا ہوں۔ اللہ اللہ اللہ۔‘‘
(صبح، جمعہ ۱۴؍ماہ اکتوبر ۱۸۶۴ء)
ایسا نہیں کہ مرزا غالب نے اواخرِ عمر میں ہی اس طرح کے خطوط لکھے بلکہ جب اُن کے قویٰ میں توانائی تھی اس وقت بھی ان کی زندگی میں الم ناکیاں کسی نہ کسی نوع کی ضرور موجود تھیں۔ ایک خط سے اقتباس دیکھیے:
’’خلاصہ یہ کہ صبح کو جاتا ہوں، دوپہر کو آتا ہوں۔ کھانا کھا کر پانچ چار گھڑی دم لے کر جاتا ہوں، چراغ جلے آتا ہوں۔ بھائی تمہارے سر کی قسم رات کو مزدوروں کی طرح تھک ہار کر پڑ رہتا ہوں۔‘‘(بنام منشی نبی بخش حقیر)
(کوثر مظہری کے مضمون سے اقتباسات)
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں


