نیویارک: اقوام متحدہ کی جانب سے جاری کی جانے والی ایک رپورٹ کے مطابق عالمی درجہ حرارت میں اضافے یعنی گلوبل وارمنگ سے 2030 تک کم از کم 2 کھرب پاؤنڈز کے نقصان کا اندیشہ ہے۔
یہ رپورٹ اقوام متحدہ، اور اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام یو این ڈی پی کی جانب سے جاری کی گئی ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گرمی میں اضافے کی وجہ سے کھلی فضا میں کام کرنا مشکل ہوجائے گا جس کے باعث دنیا بھر کی معیشتوں پر منفی اثر پڑے گا۔
رپورٹ کے مطابق مشرقی ایشیائی ممالک میں خاص طور پر درجہ حرارت میں اضافے کے بعد سالانہ اوقات کار میں 20 فیصد تک کمی ہوجائے گی۔
جاری کی جانے والی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دنیا بھر میں 43 ممالک جن میں زیادہ تر ایشیائی ممالک ہیں، کو اپنی کل مجموعی پیداوار میں کمی کا سامنا ہوگا۔
ان 14 سالوں میں چین اور بھارت کو سالانہ تقریباً 340 بلین پاؤنڈز جبکہ انڈونیشیا اور ملائیشیا کو 188 بلین اور تھائی لینڈ کو 113 بلین پاؤنڈز کا نقصان اٹھانا ہوگا۔
کلائمٹ چینج کے باعث جنوبی ایشیائی ممالک میں تنازعوں کا خدشہ *
رپورٹ کے مصنف ڈاکٹر ٹورڈ کیلسٹورم کا کہنا ہے کہ بڑھتا ہوا درجہ حرارت ہماری روزمرہ کی زندگیوں پر اثر انداز ہوگا۔ ’جتنی زیادہ گرمی ہوگی، ہمارے کام کرنے کی رفتار اتنی ہی کم ہوجائے گی۔ کئی ممالک میں صرف چند روز کے لیے ہیٹ ویو آئی اور اس سے ان ممالک کی معیشتوں کو اربوں کا نقصان پہنچا‘۔
تاہم دیگر ماہرین کی طرح انہوں نے بھی اس بات پر زور دیا کہ اگر ہم ہنگامی طور پر گرین ہاؤس گیسوں کا اخراج کم کریں تو ہم اس نقصان میں کسی حد تک کمی کر سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ذاتی طور پر وہ موسمیاتی تغیر یعنی کلائمٹ چینج سے نمٹنے کے لیے کی جانے والی کوششوں سے مطمئن نہیں۔ ’یہ اقدامات ابھی بھی کم ہیں۔ ہمیں فوری طور پر مزید اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔ اگر ہم اب سے 40 سال بعد اس کے لیے اقدامات کریں گے تو ان کا کوئی فائدہ نہیں‘۔
واضح رہے کہ کلائمٹ چینج اور اس کے باعث ہونے والی گلوبل وارمنگ کو دنیا کے لیے ایک بڑا خطرہ قرار دیا جارہا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ کلائمٹ چینج اس وقت دہشت گردی سے بھی بڑا مسئلہ ہے اور اس سے فوری طور پر نمٹنے کی ضرورت ہے۔
گلوبل وارمنگ: شمالی علاقوں میں گلیشیئرز کے پگھلنے کی رفتار میں اضافہ *
اس سے قبل ورلڈ بینک بھی اپنی ایک رپورٹ میں متنبہ کرچکا ہے کہ کلائمٹ چینج اور پانی کی کمی کچھ ممالک کی قومی پیداوار یعنی جی ڈی پی میں 2050 تک 6 فیصد کمی کردے گی۔ پانی کی قلت کے باعث مشرق وسطیٰ کو اپنی جی ڈی پی میں 14 فیصد سے بھی زائد کمی کا سامنا ہوسکتا ہے۔