تازہ ترین

حکومت کا ججز کے خط پر انکوائری کمیشن بنانے کا اعلان

اسلام آباد: وفاقی حکومت نے اسلام آباد ہائی کورٹ...

فوجی عدالتوں سے 15 سے 20 ملزمان کے رہا ہونے کا امکان

اسلام آباد : اٹارنی جنرل نے فوجی عدالتوں سے...

گلبدن بیگم کا تذکرہ جنھیں شہنشاہِ ہند جلال الدّین اکبر نے قبر میں اتارا تھا

برطانیہ کے عجائب خانہ میں مغلیہ دور کی ایک کتاب کا قلمی نسخہ آج بھی محفوظ ہے جس کے سرورق پر عنوان درج ہے، ‘ہمایوں نامہ۔ تصنیف گلبدن بیگم بنتِ بابر بادشاہ۔’

گلبدن بیگم ہندوستان میں مغلیہ سلطنت کی بنیاد رکھنے والے ظہیر الدّین محمد بابر کی بیٹی تھی۔ شاہ زادی گلبدن کے حالاتِ زندگی کے بارے میں‌ ہم بہت کم جانتے ہیں‌، لیکن ’ہمایوں نامہ‘ اسی کی تصنیف ہے اور اسی کتاب نے شاہ زادی کو تاریخ میں زندہ رکھا ہے۔

1523ء میں گلبدن بیگم نے کابل میں شہنشاہ ظہیر الدّین محمد بابر کے ہاں‌ آنکھ کھولی تھی۔ اس کی ماں کا نام دلدار بیگم تھا۔ اس تیموری اور چنگیزی خاندان کی مادری زبان ترکی تھی۔ گلبدن کی پیدائش کے وقت کابل پر بابر کی حکم رانی کو 19 سال ہوچکے تھے اور وہاں‌ کی زبان فارسی تھی۔ یہی زبان ہندوستان میں‌ بھی پروان چڑھ چکی تھی جس کا اظہار گلبدن بیگم نے اپنی کتاب میں کیا ہے۔ گلبدن کا ابتدائی بچپن کابل میں گزرا تھا۔ وہ پانچ چھے برس کی تھی جب والد کے ساتھ ہندوستان آئی۔ یہاں دو ڈھائی سال کے بعد بابر کا انتقال ہوگیا اور گلبدن بیگم نے ہمایوں بادشاہ کے زیرِ نگرانی جو اس کے بھائی تھے، تربیت پائی۔ وہ سولہ سال کی تھی جب اس کی شادی ہو گئی، مگر مؤرخین کا قلم اس بارے میں خاموش ہے جب کہ خود گلبدن نے اس کا تذکرہ اشارتاً کیا ہے۔

ہمایوں نامہ میں گلبدن بیگم نے ذکر کیا ہے کہ جب ان کی عمر دو سال تھی تو انھیں ماہم بيگم کے سپرد کر دیا گیا تھا۔ ماہم بیگم نے اپنے بیٹے ہمایوں اور دیگر بچّوں کے ساتھ ان کی بھی پرورش اور تربیت کی تھی۔ انہی کی سرپرستی میں‌ گلبدن بیگم نے دربار اور شاہی محل کے اطوار و آداب سیکھے۔

چند تاریخی کتب میں آیا ہے کہ وہ 50 سال کی عمر میں طوافِ بیتُ اللہ کو گئی اور تین سال سے زائد عرصہ وہاں قیام رہا۔ مغل شاہ زادی نے آج ہی کے دن آگرہ میں‌ 80 سال کی عمر میں انتقال کیا، 1603ء میں وفات پانے والی گلبدن بیگم کا احوالِ زیست اور اس سے متعلق واقعات بھی کہیں‌ مذکور نہیں‌۔ حیرت انگیز طور پر شاہ زادی نے اپنی تصنیف میں بھی اپنے بارے میں بہت کم لکھا ہے، اور کسی بھی موقع پر تفصیل سے حالات یا کوئی واقعہ رقم نہیں‌ کیا، لیکن کتاب کے مطالعے سے حرم اور مغل سلطنت میں اس کی اہمیت کا اندازہ ضرور کیا جاسکتا ہے۔

ہمایوں نامہ تاریخی اہمیت کی حامل ایسی کتاب ہے جس کی حیثیت اس کی مصنّف کے تعلق سے بھی بڑھ جاتی ہے کہتے ہیں یہ کتاب گلبدن بیگم نے اپنے بھتیجے اکبر بادشاہ کی فرمائش پر لکھی تھی۔

یہ بھی کہا جاتا ہے کہ بادشاہ اکبر اپنی پھوپھی کے جنازے کے ساتھ قبرستان گئے اور انھیں قبر میں اتارا تھا۔ مؤرخین کے مطابق وہ نہایت فیاض اور درد مند عورت تھی۔ صدقہ خیرات کثرت سے کیا کرتی تھی۔

اپنی مشہور تصنیف کے بارے میں گلبدن بیگم نے لکھا ہے کہ اکثر واقعات اپنی یادداشت کی مدد سے اس کتاب میں لکھے ہیں، اور کچھ دوسروں کی زبانی سن کر لکھے ہیں۔

گلبدن بانو کی یہ تصنیف بتاتی ہے کہ وہ صاف گو بھی تھی۔ اس نے اپنے بھائی اور بادشاہ ہمایوں کی لغزشوں کو نہیں چھپایا اور نہ ہی اس کتاب میں شاہی خاندان اور اپنے دوسرے بھائیوں کی کوتاہیوں کو چھپانے کی کوئی کوشش کی ہے۔

ہمایوں نامہ کی بنیاد پر مؤرخین اس بات کو بہت اہمیت دیتے ہیں‌ کہ گلبدن بانو وہ شہزادی تھی جس نے مغل حرم سے منسلک عیش و نشاط کے تصور کو بدلا اور بعد میں جب ان کے بھتیجے اکبر بادشاہ کی مذہب سے دوری اور ہندوستان کے مسلمانوں‌ میں اس سے متعلق بدگمانی عام ہورہی تھی تو اسے بھی دور کرنے کی کوشش کی۔

Comments

- Advertisement -