تازہ ترین

پاکستان کو آئی ایم ایف سے 6 ارب ڈالر قرض پروگرام کی توقع

وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ...

اسرائیل کا ایران پر فضائی حملہ

امریکی میڈیا کی جانب سے یہ دعویٰ سامنے آرہا...

روس نے فلسطین کو اقوام متحدہ کی مکمل رکنیت دینے کی حمایت کردی

اقوام متحدہ سلامتی کونسل کا غزہ کی صورتحال کے...

قومی ترانے کے خالق’شاعرِ پاکستان‘ کو بچھڑے 37 برس بیت گئے

اردو زبان کے شہرہ آفاق شاعر اور قومی ترانے کے خالق حفیظ جالندھری کی 37 ویں برسی عقیدت واحترام کے ساتھ آج منائی جارہی ہے۔

قومی ترانے کے خالق کی حیثیت سے حفیظ جالندھری نے شہرت کی دوام پائی اور ملکہ پکھراج نے ان کی نظم ابھی تو میں جوان ہوں کو گا کر امر کردیا، آپ 82 سال کی عمر میں جہانِ فانی سے رخصت ہوگئے تھے۔

آپ کی پیدائش 14 جنوری 1900 کو ہندوستان کے شہر جالندھر میں ہوئی، تقسیم برصغیر کے بعد آپ نے پاکستان منتقلی کا فیصلہ کیا اور اپنے اہل خانہ سمیت لاہور منتقل ہوگئے،حفیظ جالندھری کا قلمی نام ’ابولاثر‘ تھا۔

آپ کا فنی کارنامہ اسلام کی منظوم تاریخ ہے جس کا نام ’شاہ نامۂ اسلام‘ ہے لیکن آپ کی وجۂ شہرت پاکستان کا قومی ترانہ ہے۔

حفیظ جالندھری کی خدمات کو دیکھتے ہوئے میں انہیں شاعرِاسلام اور شاعرِپاکستان کے خطابات سے نوازا گیا۔ علاوہ ازیں سرکاری سطح پر آپ کو دیگر اعزازات انہیں ہلال امتیاز اور تمغۂ حسنِ کارکردگی سے بھی نوازا گیا۔

ارادے باندھتا ہوں سوچتا ہوں تو ڑ دیتا ہوں

کہیں ایسا نہ ہو جائے کہیں ویسا نہ ہو جائے

آپ کا موضوع سخن فلسفہ اورحب الوطنی تھا جبکہ آپ نے بچوں کے لیے بھی تحریریں لکھیں جو بے حد مقبول ہوئیں۔

آپ غزل کی شاعری میں کامل ویکتا تھے، 1925 میں ’نغمہ زار‘ کے نام سے حفیظ کا پہلا مجموعہ شائع ہوا جس میں ’ابھی تو میں جوان ہوں‘ غزل بھی موجود تھی۔

بعد ازاں سوزوساز، تلخابہ شیریں، چراغ سحر اور بزم نہیں رزم کے عنوانات سے آپ کے مجموعے شائع ہوئے۔

دیکھا جو تیرکھا کہ کمیں گاہ کی طرف

اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہوگئی

حفیظ جالندھری کا انتقال 21 دسمبر 1982 کو لاہور میں ہوا۔

شعر وادب کی خدمت میں جو بھی حفیظ کا حصہ ہے

یہ نصف صدی کا قصہ ہے دو چار برس کی باتیں نہیں

Comments

- Advertisement -