تازہ ترین

حکومت کا ججز کے خط پر انکوائری کمیشن بنانے کا اعلان

اسلام آباد: وفاقی حکومت نے اسلام آباد ہائی کورٹ...

فوجی عدالتوں سے 15 سے 20 ملزمان کے رہا ہونے کا امکان

اسلام آباد : اٹارنی جنرل نے فوجی عدالتوں سے...

میسحُ الملک اور حاذق طبیب حکیم اجمل اپنی عربی دانی کے لیے بھی مشہور تھے

متحدہ ہندوستان کے مشہور اور قابلِ‌ ذکر اطبا میں حکیم محمد اجمل خاں ایسی شخصیت تھے جنھیں برصغیر ہند و پاک سے باہر عالمِ عرب اور یورپ میں‌ بھی پہچانا گیا۔ انھیں جس طرح ہندوستان کے تمام طبقات میں عزّت و احترام کی نظر سے دیکھا جاتا تھا، اسی طرح عالمِ عرب کے علمی حلقوں میں بھی ان کی بڑی پزیرائی ہوئی۔

حکیم اجمل خان تعلیم و تربیت روایتی انداز میں اس وقت کے فاضل اساتذہ نے کی تھی۔ اس کے بعد ان کی توجّہ علمِ طبّ کی طرف ہوئی۔ انھوں نے 1868ء میں‌ آنکھ کھولی تھی اور اس زمانے میں طبّی تعلیم عربی مصادرِ طبّ کے ذریعے دی جاتی تھی۔ رام پور کے زمانۂ قیام میں حکیم صاحب کو علّامہ محمد طیّب عرب مکی سے خصوصی استفادہ کا موقع ملا تھا۔ علّامہ طیّب کا وطن مکّہ معظمہ تھا، جہاں سے وہ نوجوانی ہی میں رام پور آگئے تھے۔ وہ عربی ادب اور معقولات کے امام تھے۔ تاریخ، انسابِ عرب اور عربی شاعری میں وسیع معلومات رکھتے تھے۔ ایسی علم و شان والی شخصیت کی صحبت میں‌ حکیم اجمل نے عربی زبان پر عبور حاصل کیا۔

بعد کے عرصے میں‌ انھوں‌ نے عربی زبان میں تصنیف و تالیف کی بدولت شناخت بنائی۔ قیامِ رام پور کے زمانے میں حکیم صاحب کو اپنے ذوقِ مطالعہ کی آب یاری کا موقع ملتا رہا اور اس وقت ریاست کا قدیم اور بے مثال کتب خانہ ان کے سپرد تھا۔ انھوں نے وہاں کے علمی ذخیرے اور خاص طور پر عربی کتب سے بھرپور استفادہ کیا۔ ان کا ایک اہم علمی کارنامہ یہ ہے کہ اس زمانے میں کتب خانے کی عربی کتابوں کی فہرست تیّار کروا کے اس کی طباعت کروائی تھی۔ اسی زمانے میں انھوں نے طبّی موضوعات پر تصنیف و تالیف کا بھی سلسلہ بھی شروع کیا تھا جو ان کی یادگار ہیں اور علم و ادب کا بڑا خزانہ بھی۔

حکیم صاحب کی صرف ایک کتاب رسالۂ طاعون کے علاوہ تمام تصانیف عربی زبان میں ہیں۔ ان میں القول المرغوب فی الماءُ المشروب، الساعاتیۃ، البیانُ الحسن بشرحِ المعجون المسمّیٰ باکسیرُ البدن، الوجیزۃ، مقدمۃُ اللّغاتُ الطبیۃ و دیگر شامل ہیں۔

حکیم اجمل کی ان تصانیف میں خاص طور پر آخرُ الذّکر کتاب بہت اہمیت رکھتی ہے کیوں کہ وہ کئی پہلوؤں‌ سے افادی ہے جس میں اس کے موضوع طبّ کا احاطہ کرتے ہوئے ہوئے مصنّف نے لغت نویسی کے اصول و مبادی بیان کیے ہیں۔ حکیم اجمل نے اس کتاب میں دونوں موضوعات کو جس خوب صورتی سے جمع کر دیا ہے اور جس دقّت و مہارت کے ساتھ اس میں بحث کی ہے اس کی مثال کم ہی ملتی ہے۔

وہ اسلامیانِ ہند کے خیر خواہ اور سیاسی راہ نما بھی تھے جن کی سیاسی رائے کو بڑی اہمیت دی جاتی تھی۔ انھوں نے ہندوستان میں طبّی کانفرنس کے علاوہ کالج کے قیام سے بھی شہرت پائی۔

حکیم اجمل نے عالمِ عرب کی سیّاحت بھی کی اور مختلف شہروں میں ہندوستانی حاذق طبیب کی حیثیت سے ان کا جانا ہوا۔ انھوں نے پہلا سفر مارچ 1905ء میں عراق کا کیا، جہاں تقریباً تین ماہ گزارا اور بصرہ، نجف، کربلا اور دیگر متبرک و تاریخی مقامات کی زیارت کی۔ جب کہ 1911ء میں یورپ کی سیر بھی کی جس میں لندن، کیمبرج، آکسفورڈ کے علاوہ فرانس اور جرمنی کے متعدد شہروں میں قیام کیا۔ اپنے اس دورے میں‌ حکیم اجمل خان نے وہاں کے تعلیمی اداروں، اسپتالوں، میوزیم اور لائبریریوں کا معائنہ کیا اور نادر کتابیں اور مخطوطات دیکھے۔ اس سفر کے دوران وہ ترکی اور مصر بھی گئے اور وہاں کی علمی شخصیات سے ملاقات کی اور اہم مخطوطات کے مطالعہ میں وقت گزارا۔

انھوں نے تیسرا سفر بھی یورپ کا کیا اور یہ بات ہے 1925ء کی۔ وہ تقریباً ڈیڑھ ماہ سوئزر لینڈ میں رہے۔ واپسی میں وہ مصر، شام، فلسطین اور لبنان گئے جہاں‌ کی اہم علمی و ادبی شخصیات اور قابل اطبا و اساتذہ سے ملاقات کرتے ہوئے ان کے علمی کارناموں اور کتابوں کی معلومات اکٹھی کرکے وطن لوٹے۔

حکیم اجمل بڑی روانی سے عربی زبان بولتے تھے۔ اس صلاحیت سے انھوں نے عالمِ عرب کی سیاحت کے دوران خوب فائدہ اٹھایا۔ 29 دسمبر 1927ء کو طبِّ یونانی کے اس مشہور طبیب و حکیم کی زندگی کا سفر تمام ہوگیا تھا۔ انھیں‌ ہندوستان میں‌ مسیحُ الملک کے نام سے بھی یاد کیا جاتا تھا۔

Comments

- Advertisement -