بنگلہ دیش کی معزول اور مفرور وزیراعظم 76 سالہ حسینہ واجد کو دوست ملک بھارت میں پناہ لیے ایک ماہ ہوگیا اور وہ اپنے سفارتی مہمانوں کیلیے درد سر بن گئی ہیں۔
گزشتہ ماہ بنگلہ دیش میں طلبہ احتجاج سے آنے والے انقلاب کے بعد شیخ حسینہ واجد اپنا 16 سالہ اقتدار چھوڑ کر پڑوسی دوست ملک بھارت فرار ہوئی تھیں اور اس وقت کہا گیا تھا کہ وہ وہاں کچھ وقت کے لیے جا رہی ہیں اور جلد ہی کسی اور ملک میں سیاسی پناہ لے کر وہاں منتقل ہو جائیں گی۔
ذرائع کے مطابق وہ بنگلہ دیش سے مفروری کے عبد بھارت میں نامعلوم مقام پر کیے گئے غیر معمولی حفاظتی اقدامات میں روپوش ہیں۔
حسینہ واجد کی سیاسی پناہ یا عارضی قیام کے تحفظ فراہم کرنے کی درخواستوں کو لندن سمیت کسی بھی ملک نے ان کی در خور اعتنا نہیں سمجھا۔ ان کا سفارتی پاسپورٹ منسوخ ہو چکا ہے اور بھارت میں ہی ان کی خاموشی اور گمنامی کی زندگی کا آغاز بھی شروع ہو چکا ہے۔
اگست میں شیخ حسینہ کے 16 سالہ آمرانہ دور کا خاتمہ اس وقت ہوا، جب مظاہرین نے ڈھاکا میں ان کی سرکاری رہائش گاہ کی جانب مارچ کیا۔
بنگلہ دیشی طلبہ جنہوں نے بغاوت کی قیادت کی تھی، مطالبہ کر رہے ہیں کہ وہ انڈیا سے واپس لوٹیں تاکہ ان پر مظاہرین کے قتل کا مقدمہ چلایا جائے۔
غیر ملکی میڈیا کے مطابق ملک سے فرار ہونے سے قبل انڈیا شیخ حسینہ واجد کا سب سے بڑا حامی تھا۔ مودی نے 84 سالہ نوبل انعام یافتہ محمد یونس کی قیادت میں آنے والی حکومت کی حمایت کا اعادہ کیا ہے۔ تاہم انہیں بنگلہ دیش واپس بھیجنے سے جنوبی ایشیا میں انڈیا کی ساکھ کمزور ہونے کا خدشہ ہے، جہاں وہ چین کے اثر و رسوخ کے خلاف سخت مقابلہ کر رہا ہے۔
تھنک ٹینک انٹرنیشنل کرائسز گروپ کے تھامس کیئن کا کہنا ہے کہ انڈیا انہیں بنگلہ دیش کے حوالے نہیں کرنا چاہتا۔
حوالگی سے متعلق انہوں نے مزید کہا کہ ’پیغام جو خطے کے دیگر رہنماؤں کو جائے گا جو نئی دہلی کے قریب ہیں، زیادہ مثبت نہیں ہو گا کہ انڈیا آپ کی حفاظت نہیں کرے گا۔‘
بنگلہ دیش میں وہ لوگ جو شیخ حسینہ کی حکومت کے دوران کی جانے والی زیادتیوں سے متاثر ہوئے تھے، وہ انڈیا مخالف ہیں۔
بی این پی کے ایک سینیئر رہنما فخر الاسلام عالمگیر ان ہزاروں ارکان میں سے ایک ہیں جو شیخ حیسنہ کے دور حکومت میں گرفتار کیے گئے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’بنگلہ دیش کے لوگ انڈیا کے ساتھ اچھے تعلقات چاہتے ہیں لیکن اپنے مفادات کی قیمت پر نہیں۔‘
بنگلہ دیش کی عبوری حکومت نے سرکاری سطح پر نئی دہلی کے ساتھ شیخ حسینہ کے انڈیا میں پناہ لینے کا مسئلہ نہیں اٹھایا ہے لیکن ڈھاکہ نے ان کا سفارتی پاسپورٹ منسوخ کر دیا ہے اور انہیں آگے کا سفر کرنے سے روک دیا ہے۔
دونوں ممالک کے درمیان ملزمان کی حوالگی کا معاہدہ ہوا ہے جس پر پہلی مرتبہ 2013 میں دستخط کیے گئے تھے۔ اس معاہدے کے تحت ان کو واپس بھیجا جا سکتا ہے۔
تاہم معاہدے کی ایک شق کہتی ہے کہ اگر جرم ’سیاسی شخصیت‘ کا ہو تو حوالے کرنے سے انکار کیا جا سکتا ہے۔
بنگلہ دیش میں انڈیا کے سابق سفیر پِنک رانجن چکرورتی کا کہنا ہے کہ کسی بھی حکومت کو یہ احساس ہو گا کہ شیخ حسینہ کے انڈیا میں قیام کو مسئلہ بنانے سے انہیں کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔