اگر کسی شاعر کا ظاہر و باطن، زندگی اور فن ایک سا رہا ہے تو جرأت کا۔ اگر کسی کی شاعری میں مکمل ’’خلوص‘‘ (ادبی خلوص نہیں) ملے گا تو جرأت کے یہاں۔ سنتے ہیں کہ وہ خوش باش، خوش طبع، ظریف، لطیفہ باز اور عاشق مزاج قسم کے انسان تھے۔ اہلِ دل نہیں تھے، بلکہ دل والے، بلکہ دل پھینک۔ یہ میں نے اعتراض یا طعنے کے طور پرنہیں کہا۔ میں صرف ان کی شاعری کی صحیح تعریف معلوم کرنا چاہتا ہوں، اور میرا احساس یہ ہے کہ جرأت کی شاعری ان کی خوش باشی ہی کا ایک حصہ تھی۔
میر کے اندر جو شاعر ہے وہ ان کی شخصیت کو کبھی قبول کرتا ہے، کبھی روکتا ہے، کبھی دونوں باتیں ایک ساتھ کرتا ہے۔ بہرحال وہ ان کی شخصیت سے باہر نکل جانے کے لئے ہاتھ پاؤں مارتا رہتا ہے۔ جرأت کے اندر جو شاعر ہے وہ ان کی شخصیت کے اندر رہتے ہوئے ذرا بھی بے چینی نہیں محسوس کرتا، وہ تو صرف اس شخصیت کا ترجمان ہے۔
یہ نہ سمجھیے کہ مجھے جرأت سے کوئی چڑ ہے، اور میں ان کی شاعری کو محض خوش باشی کہہ کر ٹالنا چاہتا ہوں۔ اگر ٹالنا ہوتا تو پورا مضمون لکھنے کی کیا ضرورت تھی۔ ایک فقرے میں ہی کام چل جاتا۔ جرأت کی زندگی میں شاعری کا کیا مقام تھا، یہ انہیں کی زبان سے سنیے۔ میر تو شاعری کے بارِ گراں سے گھبرا کر چیخ پڑتے تھے۔
ہم کو شاعر نہ کہو میر کہ صاحب ہم نے
دردِ دل اتنے کیے جمع تو دیوان ہوا
بقول فراق صاحب، میر نے شعر نہیں، تعریف کرنے والوں کے منہ پر جوتا مارا ہے۔ اس کے برخلاف جرأت کے لئے شاعری سماجی مقبولیت حاصل کرنے کا ایک ذریعہ ہے۔
جرأت جوابِ میر تو ایسا ہی کہہ کہ بس
چاروں طرف سے شور سنے واہ واہ کا
(اس ’’جوابِ میر‘‘ کی ستم ظریفی کا بھی جواب نہیں) شعر کہہ کر وہ یہ دکھانا چاہتے ہیں کہ میں مجلسی کمالات کی پوٹ ہوں اور فن شعر پر مجھے قدرت حاصل ہے۔ اسی لئے انہیں میر، مصحفی، سودا جیسے استادوں کی زمین میں شعر کہنے کا خاص شوق ہے۔ اس سے ان کا ہنر تو ضرور ظاہر ہوتا ہے۔ مگر وہ گھاٹے میں اس لئے رہتے ہیں کہ دو مزاجوں کا تقابل اور تضاد پیدا ہوتے ہیں، ان کے شعر کا ہلکا پن ابھر آتا ہے۔ مثلاً مصحفی کی غزل کا یہ مشہور شعر ہے۔
صبح پر یار کا ہے وعدہ وصل
ایک شب اور ہی جئے ہی بنے
اس کا جواب جرأت یوں دیتے ہیں،
اس کے آنے تک اے دلِ بیمار
جس طرح ہو سکے جئے ہی بنے
مگر مجلس کا تقاضہ ہے کہ استادوں کے رنگ میں یا کم سے کم ان کی زمین میں کہا جائے۔ جرأت اپنی ہر تیسری چوتھی غزل میں یہ بات یاد دلاتے ہیں کہ ان کے گرد دوسرے آدمی نہیں بلکہ شعر سننے والے یا دوست جمع ہیں اور انہیں اپنا بھرم رکھنا ہے۔ جتنے دوغزلے اور سہ غزلے جرأت نے کہے ہیں، شاید ہی کسی شاعر نے کہے ہوں اور ہر دفعہ جتا دیتے ہیں کہ ابھی کیا دیکھا ہے آگے دیکھنا۔
ایک ہی پڑھ کر غزل جرأت ہوا تو کیوں خموش
شعر ابھی تو اور بھی ہیں تجھ سے پڑھوانے کئی
ہے شگفتہ یہ غزل جرأت غزل ہو اور بھی
دیکھیں مضمون اس سے بہتر اور تو کیا لائے ہے
کہہ جرأت ایک اورغزل وہ کہ سب کہیں
لکھنے سے اس کے دفتر اشعار گرم ہے
جرأت غزل اک اور ملا تو کہ کہیں سب
کب ایسی گرہ اورغزل خواں نے لگائی
جرأت نے اپنی شاعرانہ ذہنیت کی بالکل صحیح تعریف کر دی ہے۔ وہ شاعری نہیں کرتے’’غزل ملاتے ہیں‘‘ در اصل جرأت ان لوگوں میں سے نہیں جو اپنی شخصیت اپنے آپ بتاتے ہیں اور بتاتے رہتے ہیں۔ جنہیں یہ پتہ ہی نہیں ہوتا کہ ہم جو نئی شکل اختیار کریں گے، اس کے متعلق دوسروں کا اور خود ہمارا رویہ کیا ہوگا۔ جرأت تو گھڑا گھڑایا کردار ہیں، انہیں بھی معلوم ہے اور دوسروں کو بھی ان سے کن کن باتوں کی توقع کی جا سکتی ہے۔ انہیں پورا علم ہے کہ میں دل چسپ آدمی ہوں اور لوگ مجھے پسند کرتے ہیں اور وہ کسی بے ایمانی کے بغیر خلوص کے ساتھ چاہتے ہیں کہ لوگ مجھے اور بھی پسند کریں۔ انہوں نے دنیا بھر کے تماشے دیکھے ہیں، بیس جگہ آنکھ لڑائی ہے۔ دوستوں کی محفل میں بیٹھ کر ان کا دل خوش کرنے کے لئے انہیں سیکڑوں قصے یاد ہیں۔ یہ قصے انہوں نے نثر میں نہیں بلکہ شعروں کی شکل میں سنائے ہیں۔ ان کی شاعری کی بنیادی تحریک یہی ہے کہ اپنے معاشقوں کے بارے میں دوستوں کے ساتھ بیٹھ کر گپ کی جائے تاکہ مجلس میں گرمی آئے اور لوگوں کے دلوں میں ان کی قدر بڑھے۔ اس مقصد میں وہ کامیاب ہوئے ہیں اور لوگ ایک قصہ سن کر دوسرا سننا چاہتے ہیں۔
حسبِ حال اشعار کہیے اپنے اب جرأت کچھ اور
یہ غزل تو تھی کئی یاروں کی کہوائی ہوئی
یہاں یہ تنبیہ پھر ضروری ہے کہ دل چسپ آدمی بننے اور لوگوں میں مقبول ہونے کی خواہش کوئی بری بات نہیں۔۔۔ زندگی میں ایسے مزاج، ایسے آدمیوں اور ایسی شاعری یاروں کی محفل کے بغیر وجود میں نہیں آتی۔ یہ خود کلامی نہیں بلکہ گفتگو ہے جس کے لئے دل چسپ ہونا لازمی ہے۔ یہ شاعری پورے معنوں میں تخلیقی عمل میں یا داخلی تجربات کی تنظیم یا قلب ماہیت نہیں بلکہ ان واقعات کا بیان ہے، جو شاعر کو پیش آئے۔ یہ ضروری نہیں کہ سارے واقعات طرب ناک ہی ہوں، یہ دل چسپ آدمی جسے بیسیوں قصے یاد ہیں چونکہ خلوص اور صاف گوئی سے کام لے رہا ہے، اس لئے محرمیوں کی داستان بھی سنائے گا۔
سنایا اس کو یہ قصہ کہ بس آنسو نکل آئے
لیکن ذہنیت ہو گی قصہ گوئی کی ہی۔ اس لئے جرأت کو مسلسل غزل بہت عزیز ہے۔ مسلسل غزل کہنے کے معاملے میں بھی جرأت غالباً سب شاعروں کے آگے ہیں۔ چونکہ یہ قصے یاروں کو سنائے جا رہے ہیں اسی لئے ان کی غزل میں ایسی روانی اور سلاست آئی ہے اور اسی لئے پڑھنے والے کو بڑی آسانی سے قربت کا احساس ہونے لگتا ہے۔ اس اعتبار سے ان کا عشق ان کی شعر گوئی کے لئے بڑا مفید ثابت ہوا ہے۔ کیونکہ انہیں سنانے کے لئے اتنے قصے مل گئے۔ پھر شعر گوئی کی قدرت کے سبب ان کا عشق بھی دل چسپ بن گیا۔ لیکن چونکہ ان کے عشق کا ایک مصرف یہ بھی ہے کہ دوسروں کی تفریح طبع کا ذریعہ ہے۔ اس لئے وہ اپنے عشق کو عام طور پر معاشقے کی سطح سے اونچا نہیں اٹھنے دیتے۔ ممکن تھا کہ وہ میر کے زیر اثر اپنے عشق کے مطالعے کی طرف بھی راغب ہو جاتے، مگر یاروں کے زیر اثر انہوں نے اپنی محبتوں کو واقعات ہی رہنے دیا۔ اگر ہم جرأت کے ساتھ ذرا سختی برتنا چاہیں تو یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ وہ یاروں میں مقبول ہونے کے لئے شعر کہتے تھے اور شعر کہنے کے لئے عشق کرتے تھے۔ بہر حال ان کی شاعری میں یہ احساس غالب ہے کہ شعر اور عشق دونوں مجلسی کمالات کا ایک حصہ ہیں اور خوش وقتی کا ایک وسیلہ۔
چنانچہ ان کا فن اصل میں ناول نگار یا افسانہ نویس کا فن ہے، شاعر کا نہیں۔
(اردو کے ممتاز نقّاد، مترجم اور افسانہ نگار محمد حسن عسکری کے مضمون سے اقتباسات)
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں


