تازہ ترین

سعودی وفد آج اسلام آباد میں اہم ملاقاتیں کرے گا

اسلام آباد : سعودی وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن...

فیض آباد دھرنا : انکوائری کمیشن نے فیض حمید کو کلین چٹ دے دی

پشاور : فیض آباد دھرنا انکوائری کمیشن کی رپورٹ...

حکومت نے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کردیا

حکومت کی جانب سے پیٹرولیم مصنوعات کی نئی قیمتوں...

سعودی وزیر خارجہ کی قیادت میں اعلیٰ سطح کا وفد پاکستان پہنچ گیا

اسلام آباد: سعودی وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان...

حکومت کل سے پٹرول مزید کتنا مہنگا کرنے جارہی ہے؟ عوام کے لئے بڑی خبر

راولپنڈی : پیٹرول کی قیمت میں اضافے کا امکان...

ناریل کے پانی سے متعلق حیران کن جدید سائنسی تحقیق

طبی سائنس ہمیں ناریل کے تیل کے فوائد سے متعلق آگاہی فراہم کر چکی ہے، اسے جادوئی تیل بھی کہا جاتا ہے، تاہم کیا آپ کو معلوم ہے کہ ناریل کا پانی صحت کے لیے کتنا فائدہ مند ہے؟

ناریل قدرتی اجزا سے بھرپور ہوتا ہے جس میں موجود پانی بھی صحت کے لیے بہت مفید ہوتا ہے، اس پانی کے بیش تر طبی فوائد کی وجہ اس میں موجود الیکٹرولائٹس کی بہت زیادہ مقدار ہے، جس میں پوٹاشیم، کیلشیئم اور میگنیشم جیسے منرلز بھی شامل ہیں۔

شوگر: چوہوں پر تحقیق

چوہوں پر ہونے والی تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ ناریل کا پانی بلڈ شوگر لیول کو کم کر سکتا ہے۔ ذیابیطس سے متاثر چوہوں پر ہونے والی ایک تحقیق میں ناریل کے پانی سے بلڈ شوگر لیول کو مستحکم رکھنے میں مدد ملی۔ مگر انسانوں پر ان اثرات کی تصدیق کے لیے تحقیق کی ضرورت ہے تاہم اس پانی میں موجود میگنیشم انسولین کی حساسیت کو بڑھانے اور بلڈ شوگر لیول کو کم کرنے کی خصوصیات رکھتا ہے۔ ذیابیطس کے مریضوں کو اس پانی کا استعمال معالج کے مشورے سے کرنا چاہیے۔

گردوں میں پتھری

پتھری کی روک تھام کے لیے تحقیقی رپورٹس کے مطابق ناریل کا پانی بہترین ہے۔ گردوں میں پتھری اس وقت بنتی ہے جب کیلشیئم، آگزیلیٹ اور دیگر مرکبات باہم مل کر کرسٹل کی شکل اختیار کر لیتے ہیں اور پھر ننھے پتھر بن جاتے ہیں۔ 8 افراد پر ہونے والی ایک تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ ناریل کے پانی کا استعمال بڑھانے سے پیشاب کے راستے پوٹاشیم، کلورائیڈ اور سائٹریٹ کی زیادہ مقدار کا اخراج ہوتا ہے، یعنی گردوں میں پتھری کا خطرہ کم ہوتا ہے۔ اس حوالے سے اب تک زیادہ بڑی تحقیق نہیں ہوئی اور مزید تحقیق کی ضرورت ہے مگر ناریل کے پانی کا استعمال آزمانے میں کوئی نقصان نہیں۔

دل

2008 کی ایک تحقیق میں چوہوں کو زیادہ چکنائی اور کولیسٹرول پر مبنی غذا کا استعمال کرایا گیا جب کہ ایک گروپ کو زیادہ مقدار میں ناریل کا پانی استعمال کرایا گیا۔ نتائج سے معلوم ہوا کہ ناریل کا پانی پینے والے گروپ کا کولیسٹرول اور ٹرائی گلیسڈر لیول نمایاں حد تک کم ہوگیا۔ 2005 کی ایک تحقیق میں بتایا گیا کہ ناریل کا پانی پینا بلڈ پریشر میں کمی لانے میں بھی مددگار ثابت ہو سکتا ہے، مگر اس حوالے سے مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔ بلڈ پریشر میں کمی کے حوالے سے ایک اہم وجہ یہ ہے کہ اس میں پوٹاشیم کی مقدار متاثر کن ہوتی ہے اور پوٹاشیم بلڈ پریشر کی سطح میں کمی لانے کے لیے بہت اہم جز ہے۔

پوٹاشیم اور پٹھے

پوٹاشیم ایک ایسا بنیادی منرل اور الیکٹرولائٹ ہے، جو انسانی جسم کو پٹھوں کے افعال کے لیے درکار ہوتی ہے، ناریل کے پانی میں اس اہم غذائی جز کی موجودگی مسلز کے لیے بہت فائدہ مند ثابت ہوتی ہے۔

ہڈیوں کی صحت

ایک کپ ناریل کے پانی میں 19.2 ملی گرام کیلشیئم ہوتا ہے۔ بیش تر افراد بہت کم مقدار میں کیلشیئم کو جزو بدن بنا پاتے ہیں جس کی وجہ سے ان کی ہڈیاں کم زور ہو جاتی ہیں۔ یہ ان افراد کے لیے بہترین مشروب ہے جن کو دودھ پینا زیادہ پسند نہیں ہوتا۔

ایک اور اہم فائدہ

100 ملی لیٹر ناریل کے پانی میں 6 ملی گرام میگنیشم بھی موجود ہوتا ہے، مناسب مقدار میں میگنیشم کا استعمال نہ ہو تو مختلف مسائل ہو سکتے ہیں، مثلاً متلی، کمزوری اور تھکاوٹ۔ میگنیشم جسم کے متعدد افعال بشمول پروٹین بنانے، بلڈ شوگر اور ہائی بلڈ پریشر لیول ریگولیٹ کرنے، مسلز اور اعصاب کے افعال کا انتظام سنبھالنے کا کام کرتا ہے۔

ناریل پانی میں غذائی اجزا

ناریل کا پانی 94 فی صد پانی اور بہت کم چکنائی پر مبنی ہوتا ہے، مجموعی طور پر ایک کپ پانی میں 60 کیلوریز ہوتی ہیں۔ اس سے 15 گرام کاربوہائیڈریٹس، 8 گرام شکر، کیلشیئم کی روزانہ درکار مقدار کا 4 فی صد حصہ، میگنیشم کی روزانہ درکار مقدار کا 4 فی صد حصہ، فاسفورس کی روزانہ درکار مقدار کا 2 فی صد حصہ اور پوٹاشیم کی روزانہ درکار مقدار کا 15 فی صد حصہ جسم کو ملتے ہیں۔

جانوروں پر اہم تحقیق

جانوروں پر ہونے والی تحقیقی رپورٹس میں دریافت کیا گیا کہ ناریل کے پانی میں موجود اینٹی آکسیڈنٹس فری ریڈیکلز سے ہونے والے نقصان سے بچانے میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔ فری ریڈیکلز ایسے غیر مستحکم مالیکیولز کو کہا جاتا ہے جو میٹابولزم کے دوران خلیات بناتے ہیں، ان مالیکیولز کی پیداوار تناؤ یا انجری کے دوران بڑھ جاتی ہے۔ جب جسم میں ان مالیکیولز کی مقدار بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے تو جسم میں تکسیدی تناؤ بنتا ہے جو خلیات کو نقصان پہنچا کر مختلف امراض کا خطرہ بڑھاتا ہے۔

روزانہ کتنے قدم چلنے سے ‘موت کا خطرہ’ پچاس فی صد کم ہو جاتا ہے؟

Comments

- Advertisement -