لاہور: صوبہ پنجاب کے دارالحکومت میں لاہور ہائیکورٹ نے صاف پانی کی فراہمی کے منصوبہ میں ہونے والی بے ضابطگیوں اور مکمل تفصیلات فراہم نہ کرنے پر سخت برہمی کا اظہار کیا۔ آئندہ سماعت پر تفصیلات فراہم نہ کیے جانے پر وزیر اعلیٰ پنجاب کو طلب کرنے کا عندیہ دے دیا گیا۔
تفصیلات کے مطابق لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے ثانیہ ایڈووکیٹ کی درخواست پر سماعت کی۔ سماعت کے دوران صاف پانی کمپنی کے چیف ایگزیکٹو عدالت میں پیش ہوئے۔
درخواست گزار نے کہا کہ صاف پانی منصوبے کے نام پر سرکاری خزانے کو نقصان پہنچایا جا رہا ہے۔ صاف پانی کے نام پر روڈ شو کا بیرون ممالک انعقاد کروا کے سرکار کا پیسہ خرچ کیا جا رہا ہے جبکہ افسران کے لیے بلٹ پروف گاڑیاں خریدی جا رہی ہیں۔
عدالتی حکم کے باوجود پنجاب بھر میں قائم کمپنیوں اور سی اوز کو دی جانے والی مراعات کی مکمل تفصیلات فراہم نہ کرنے پرعدالت نے سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب آفس کی طرف سے عدالت کے حکم پر عمل نہیں کیا جارہا۔
عدالت نے کہا کہ کمپنیوں میں مرضی کی تعیناتیاں کر کے ادارے کو تباہ کرنے کی کوشش تو نہیں کی جا رہی۔ کمپنیوں کی تفصیلات فراہم کیوں نہیں کی جارہی ہیں، کیا یہ ایسٹ انڈیا کمپنی ہے۔
عدالت نے قرار دیا کہ کمپنیوں کے سی ای اوز کو 20 سے 25 لاکھ روپے تنخواہ کی مد میں دیے جا رہے ہیں، لیکن کوئی پوچھنے والا نہیں۔
فریقین سے کہا گیا کہ اگر آئندہ سماعت پر تفصیلات فراہم نہ کی گئیں تو وزیر اعلیٰ پنجاب کو طلب کیا جائے گا۔
عدالت نے آئندہ سماعت پر پنجاب میں بنائی جانے والی تمام کمپنیوں کی تفصیلات عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیتے ہوئے سماعت 2 ہفتوں تک ملتوی کر دی۔