پیر, دسمبر 9, 2024
اشتہار

نواز شریف کے خلاف نیب ریفرنسز میں فیصلے کی گھڑی قریب

اشتہار

حیرت انگیز

اسلام آباد: احتساب عدالت میں سابق وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف ریفرنسز کی سماعت جاری ہے جس میں قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے حتمی دلائل دیے جارہے ہیں۔

تفصیلات کے مطابق احتساب عدالت میں سابق وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف العزیزیہ اور فلیگ شپ ریفرنسز کی سماعت جاری ہے۔ سماعت احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کر رہے ہیں۔

نواز شریف کے خلاف نیب ریفرنسز کا ٹرائل اختتامی مراحل میں داخل ہوچکا ہے۔ العزیزیہ میں فریقین جبکہ فلیگ شپ ریفرنس میں وکیل صفائی کے حتمی دلائل مکمل ہوگئے ہیں۔

- Advertisement -

سماعت کے دوران ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل نیب سردار مظفر عباسی نے کہا کہ فلیگ شپ سے نواز شریف کو 7 لاکھ 80 ہزار درہم کے فوائد پہنچے، یہ ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے۔

نیب پراسیکیوٹر ملک اصغر نے حتمی دلائل دیتے ہوئے کہا کہ کیس میں دستاویزات ملزمان کے پاس تھیں اور وہی دے سکتے ہیں، جائیداد کی ملکیت سے متعلق ملزمان کی پرائیویٹ دستاویزات ہیں۔ ملزمان نے سپریم کورٹ میں ایک منی ٹریل دینے کی کوشش کی۔ منی ٹریل کے دوران قطری شہزادے کا خط بھی منظر عام پر آگیا۔

ملک اصغر نے کہا کہ ملزمان کی تمام دستاویزات اور مؤقف جائیداد کو درست ثابت نہیں کرتے، سپریم کورٹ میں ملزمان اپنی جائیداد کے ذرائع بتانے میں ناکام رہے۔ سپریم کورٹ نے جے آئی ٹی کے ذریعے ملزمان کو ایک اور موقع دیا تھا۔ یہی سوالات مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کو دیے گئے تھے کہ جوابات تلاش کردیں۔

انہوں نے کہا کہ جے آئی ٹی کے سامنے بھی ملزمان ذرائع بتانے میں ناکام رہے، سپریم کورٹ نے فیئر ٹرائل کے تقاضے پورے کیے اور کیس نیب کو بھیجا، اس طرح سپریم کورٹ کی جانب سے ملزمان کو تیسرا موقع دیا گیا۔ نیب نے ملزمان کو بلایا لیکن یہ لوگ پیش ہی نہیں ہوئے۔

نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ کسی دستاویز سے میاں شریف کا گلف اسٹیل سے تعلق ثابت نہیں ہوتا، شاید قومیانے کے خوف سے 2001 میں بے نامی جائیداد بنائی گئی۔ نواز شریف کی تقاریر سے بے نامی کا مقصد ظاہر ہوتا ہے۔

گزشتہ سماعت میں فلیگ شپ ریفرنس میں جبل علی فری زون اتھارٹی سے متعلق نیب کی دستاویزات پر جواب دیتے ہوئے نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے کہا تھا کہ جافزا دستاویزات قانونی شہادت کے مطابق تصدیق شدہ نہیں، دیکھنا ہوگا کیا ان دستاویزات کو شواہد کے طور پر لیا جا سکتا ہے۔

خواجہ حارث نے کہا کہ بیرون ملک سے آنے والی دستاویزات یا تو اصل یا پھرتصدیق شدہ ہوگی، جس ملک سے دستاویزات آئے گی اس ملک کی تصدیق بھی لازم ہے۔ دستاویز کی پھر پاکستانی اتھارٹی بھی تصدیق کرے گی۔ ’پاکستانی قونصل خانہ یا ڈپلومیٹک ایجنٹس اس بات کی تصدیق کرے گا، یہ طریقہ کار اختیار نہیں کیا گیا تو پھر وہ دستاویز ثابت نہیں ہوگی‘۔

انہوں نے کہا کہ کیپٹل ایف زیڈ ای کی ملازمت سے متعلق دستاویز صرف ایک خط ہے، ہم کہتے ہیں یہ جعلی اور من گھڑت دستاویزات ہیں۔ ملزم نے شواہد سے متعلق شقوق پر ہی بات کرنا ہوتی ہے۔

خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ نواز شریف نے ایک مخصوص مدت کے لیے ویزہ لیا یہ تسلیم کرتے ہیں، دستاویز کی حیثیت 161 کے بیان سے زیادہ کچھ نہیں۔

جج نے نیب پراسیکیوٹر سے سوال کیا کہ کیا آپ نے تصدیق کے لیے کوشش کی تھی؟ جس پر پراسیکیوٹر نے کہا کہ ہم نے ایم ایل اے بھیجا تھا کوئی جواب ہی نہیں آیا۔

خواجہ حارث نے کہا کہ میرا جاننا یہ ہے کہ انہوں نے کوئی ایم ایل اے نہیں بھیجا، نواز شریف کی تنخواہ سے متعلق دستاویزات اسکرین شاٹس ہیں۔ یہ اسکرین شاٹس والی دستاویزات بھی تصدیق شدہ نہیں، ان سکرین شاٹس والی دستاویز پر تو کوئی مہر نہیں۔

انہوں نے کہا کہ یہ کہتے ہیں نواز شریف کا تنخواہ لینا بہت بڑا مسئلہ ہے، تنخواہ سے متعلق کسی بینک کی دستاویزات پیش نہیں کی گئیں۔ جے آئی ٹی نے جن دستاویزات پر انحصار کیا اس پر نواز شریف کا نام نہیں۔ جے آئی ٹی ممبران یہاں سے گئے اس کام کے لیے اور وہاں کچھ نہیں کیا۔ کیا انہیں کسی نے وضع کیا تھا کہ ایسا نہ کریں۔

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں