تازہ ترین

اسرائیل کا ایران پر فضائی حملہ

امریکی میڈیا کی جانب سے یہ دعویٰ سامنے آرہا...

روس نے فلسطین کو اقوام متحدہ کی مکمل رکنیت دینے کی حمایت کردی

اقوام متحدہ سلامتی کونسل کا غزہ کی صورتحال کے...

بیوٹی پارلرز اور شادی ہالز پر فکس ٹیکس لگانے کا فیصلہ

پشاور: خیبرپختونخوا حکومت نے بیوٹی پارلرز اور شادی ہالز...

چمن میں طوفانی بارش، ڈیم ٹوٹ گیا، مختلف حادثات میں 7 افراد جاں بحق

چمن: بلوچستان کے ضلع چمن میں طوفانی بارشوں نے...

شاہ کار کہانیوں کے خالق موپساں کے سفرِ زیست کی کہانی

یہ فلابیئر تھا جس نے موپساں کو موپساں بنایا۔ 17 برس کے موپساں کو اس کی ماں نے بلند پایہ ادیب فلابیئر کے سپرد کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ اس کے بیٹے کو لکھنا پڑھنا سکھا دے اور پھر موپساں نے ایک مصنّف اور افسانہ نگار کے طور پر دنیا بھر میں شہرت پائی۔ آج انیسویں صدی کے اسی مصنّف کا یومِ‌ وفات ہے۔ موپساں کو جدید مختصر افسانے کا باوا آدم بھی کہا جاتا ہے۔

ہنری رینے گائے ڈی موپساں (Henri Rene Guy de Maupassant) 5 اگست 1850ء کو فرانس میں نارمنڈی میں‌ پیدا ہوا۔ اس نے فقط 42 سال کی عمر پائی اور 1893ء میں آج ہی کے دن دنیا سے رخصت ہو گیا۔ موپساں کے والدین اس وقت ہمیشہ کے لیے اپنے ازدواجی تعلق سے آزاد ہوگئے تھے جب ان کا بیٹا 11 سال کا تھا۔ موپساں اپنی ماں کے ساتھ رہنے لگا جو ایک آزاد خیال اور شعر و ادب کی دلدادہ عورت تھی۔ اس کا باپ اسٹاک بروکر تھا، لیکن وہ حسِ لطیف سے محروم اور ادبی مذاق کا حامل نہ تھا۔ یہی وجہ تھی کہ یہ جوڑا زیادہ عرصہ ساتھ نہ چل سکا اور موپساں کی ماں نے طلاق لے لی۔

نقّادوں کے مطابق موپساں نے جدید افسانے میں حقیقت نگاری اور نیچرل ازم کو متعارف کروایا۔ اس کی کہانیوں اور اسلوب کو اس کے خورد معاصرین نے بھی سراہا اور اپنایا۔ اس نے کہانی لکھنے کا فن فلابیئر سے سیکھا تھا جو ایک زبردست تخلیق کار تھا۔ اسلوب کی چاشنی، آغاز سے انجام تک ناول میں قاری کی دل چسپی برقرار رکھنے کا فن اور وہ سب جو کسی بھی تحریر یا کہانی کو انفرادیت بخش سکتا ہے، سب فلابیئر کی صحبت میں‌ ممکن ہوا تھا۔ اس نے فکری اور عملی طور پر اپنے شاگرد کی بہترین خطوط پر تربیت کی تھی اور فلابیئر کے ساتھ رہتے ہوئے موپساں کو اس زمانے کے کئی اہم اور قابلِ‌ ذکر ادیبوں اور شعرا سے ملنے اور ان کی گفتگو سننے کا موقع بھی ملتا تھا جس سے اس نے بہت کچھ سیکھا۔

موپساں کا بچپن دیہاتی ماحول میں گزرا تھا۔ وہ جنگل، دریا اور خوب صورت نظّاروں کے درمیان وقت گزارتے ہوئے بڑا ہوا۔ اس ماحول نے موپساں کی طبعِ حساس کو باریک بیں بنا دیا اور مشاہدے کی قوّت عطا کی جس سے اس نے اپنے تخلیقی سفر میں بھی بہت مدد لی۔ وہ سمندر کا شناور بھی تھا، اسے کشتی رانی اور مچھلیوں کے شکار کا شوق تھا۔ اس کے ساتھ ادب کے مطالعے کا عادی بھی اور فلابیئر کی صحبت میں جب اس نے گریجویشن کیا تو اس وقت تک ادب اور صحافت کے میدان میں اپنے سفر کا آغاز بھی کرچکا تھا۔ وہ ناول اور افسانہ نگاری کی طرف آیا تو 1880ء کی دہائی میں اس کا تخلیقی سفر عروج پر تھا۔

موپساں کے ناول اور کہانیوں کے متعدد مجموعے شایع ہوئے۔ وہ ان ادیبوں میں سے تھا جنھوں نے اس زمانے میں شہرت اور نام ہی نہیں کمایا بلکہ دولت بھی ان کے حصّے میں آئی۔ بدقسمتی سے وہ جنسی بے راہ روی کا شکار تھا۔ ایک مرض لاحق ہونے کے بعد موپساں تیزی سے موت کی طرف بڑھتا چلا گیا۔

انیسویں صدی کے اس مشہور ادیب نے قلمی ناموں سے بھی کہانیاں لکھیں۔ موپساں کے افسانوں کے متعدد مجموعے اس کی زندگی ہی میں اشاعت پذیر ہوئے۔ اس کے ناولوں اور 60 سے زائد کہانیوں کو عالمی ادب میں شاہ کار کہا جاتا ہے۔

Comments

- Advertisement -