تازہ ترین

وزیراعظم شہباز شریف کی مزار قائد پر حاضری

وزیراعظم شہباز شریف ایک روزہ دورے پر کراچی پہنچ...

ایران کے صدر ڈاکٹر ابراہیم رئیسی دورہ پاکستان مکمل کرکے واپس روانہ

کراچی: ایران کے صدر ڈاکٹر ابراہیم رئیسی دورہ پاکستان...

پاک ایران تجارتی معاہدے پر امریکا کا اہم بیان آگیا

واشنگٹن : نائب ترجمان امریکی محکمہ خارجہ کا کہنا...

کے4 منصوبے سے بھی ترستے کراچی کو پانی نہیں مل سکے گا

پانی کو ترستے کراچی کے شہریوں کو کے4 منصوبے...

ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کی کراچی آمد، مزار قائد پر حاضری

کراچی: پاکستان کے تین روزہ سرکاری دورے پر موجود...

کورونا وائرس کیخلاف اجتماعی قوت مدافعت کیسے حاصل ہوگی؟

کورونا وائرس نے پوری دنیا کا نظام بری طرح متاثر کیا ہوا ہے جس کے خاتمے کے لیے اجتماعی سرگرمیوں پر پابندیوں, ٹیسٹنگ میں اضافہ اور ویکسی نیشن ضروری ہے۔

اس کے علاوہ ایک اور طریقہ بھی موجود ہے جو ممکنہ طور پر مؤثر تو ثابت ہوسکتا ہے لیکن ساتھ ہی بہت متنازعہ بھی ہے۔ اس کے لیے ہمیں کرونا وائرس کے وسیع پیمانے پر پھیلنے کا انتظار کرنا پڑے گا۔

ایم آئی ٹی ٹیکنالوجی ریویو کے سینیئر ایڈیٹر اینٹونیو ریگالیڈو کے مطابق  اگر لوگ کورونا وائرس کا مقابلہ کرنے میں کامیاب رہے تو ایک وقت ایسا آئے گا جب لوگوں کی بڑی تعداد اس وبا کا شکار ہوچکی ہوگی اور ان کے نظام مدافعت میں اس کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت پیدا ہونا شروع ہوجائے گی۔

کورونا وائرس کے جرثومے کے لیے کمزور قوت مدافعت رکھنے والا انسان تلاش کرنا ناممکن ہوجائے گا اور کورونا وائرس کا خود بخود خاتمہ ہوجائے گا۔ اس صورتحال کو اجتماعی قوت مدافعت کہا جاتا ہے۔

کورونا وائرس کی اس عالمی وبا کے ابتدائی مراحل میں برطانیہ کے وزیراعظم بورس جانسن نے کہا تھا کہ وبا سے نمٹنے کے لیے اسی حکمت عملی سے فائدہ اٹھایا جائے گا۔

نیدرلینڈز کے وزیراعظم مارک رٹ کے خیالات بھی کچھ اسی قسم کے تھے۔ انہوں نے ایک بیان میں کہا تھا کہ اس طرح ہم نہ صرف وائرس کے پھیلاؤ کو کم کرسکیں گے بلکہ محتاط طریقے سے اجتماعی قوت مدافعت کو بھی تقویت دیں گے۔

کئی ماڈلز کے مطابق ابتدائی مراحل ہی میں اجتماعی قوت مدافعت حاصل کرنے کی کوششوں سے فائدہ نہيں بلکہ اس کا الٹا نقصان ہی ہوگا۔ ایسا کرنے سے بڑی تعداد میں لوگ کرونا وائرس کا شکار ہوں گے اور ممالک کا نظام صحت ان کا بوجھ برداشت کرنے کا متحمل نہيں ہوسکے گا۔

بعد ازاں برطانوی حکومت نے آخرکار اپنی حکمت عملی تبدیل کرکے لاک ڈاؤن میں سختی کرنے کا اعلان کر دیا۔ اس سے اگر وبا پر قابو پا بھی لیا جائے تو ہوسکتا ہے کہ اس کے خاتمے کے لیے اجتماعی قوت مدافعت کا سہارا لینا پڑے۔

اجتماعی قوت مدافعت سے کیا مراد ہے؟

جب آبادی کا بیشتر حصہ کسی جرثومے کے خلاف مدافعت پیدا کرنے میں کامیاب ہوجائے تو اس کا پھیلاؤ قدرتی طور پر رک جاتا ہے کیونکہ اسے پھیلانے کے لیے میزبان کافی نہيں رہتے۔ اسی لیے ”اجتماعی طور پر“ مدافعت پیدا ہوجاتی ہے لیکن ضروری نہيں ہے کہ ہر ایک فرد مدافعت رکھتا ہو۔

اس وقت کرونا وائرس کے باعث شرح اموات ایک فیصد ہے اور ہم تصور بھی نہيں کرسکتے کہ یہ وبا اربوں افراد تک پھیل جائے لیکن ماضی میں چند وباؤں کے دوران اجتماعی قوت مدافعت کے فوائد سامنے آچکے ہيں اور توقع کی جاسکتی ہے کہ کرونا وائرس کے ساتھ بھی ایسا کچھ ہوسکتا ہے۔

وسیع پیمانے پر یا کسی نایاب مرض کے لیے ویکسینز بھی اجتماعی قوت مدافعت کی تقویت میں اہم کردار ادا کرسکتے ہيں۔ یہی وجہ ہے کہ چیچک جیسی بیماریوں کا خاتمہ ممکن ہوا ہے اور پولیو اب صرف دنیا کے دو ممالک ہی میں رہ گیا ہے۔

یہ بات طے ہے کہ اجتماعی مدافعت کے حصول سے پہلے اربوں افراد اس وائرس کا شکار ہوں گے اور لاکھوں جانیں ضائع ہوں گی۔ کئی وبائیاتی ماڈلز میں متاثرہ افراد کی علیحدگی، سماجی تعلقات میں 75 فیصد کمی اور تعلیمی اداروں پر پابندی کے ذریعے وائرس کو ”جارحانہ طور پر دبانے“کی تجویز پیش کی گئی ہے۔

امپیریل کالج میں کرونا وائرس کی وبا کی ماڈلنگ کرنے والی ٹیم کی سربراہ ماہر وبائیات عذرا غنی ان تجاويز سے متفق نہيں ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ پھیلاؤ کو روکنے سے اجتماعی مدافعت کا ہدف حاصل نہيں ہوگاْ اگر ہم وائرس پر قابو پانے میں کامیاب ہو بھی جائيں تب بھی ہمیں پابندیاں جاری رکھنا پڑیں گی۔

اس عالمی وبا کورونا وائرس سے محفوظ رہنے کا سب سے مؤثر اور قابل علاج طریقہ ویکسین ہی ہے، جس کی تیاری میں دنیا کے متعدد ممالک اپنی استطاعت کے مطابق اپنا کردار ادا کررہے ہیں۔

Comments

- Advertisement -