تازہ ترین

پاکستان کو آئی ایم ایف سے 6 ارب ڈالر قرض پروگرام کی توقع

وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ...

اسرائیل کا ایران پر فضائی حملہ

امریکی میڈیا کی جانب سے یہ دعویٰ سامنے آرہا...

روس نے فلسطین کو اقوام متحدہ کی مکمل رکنیت دینے کی حمایت کردی

اقوام متحدہ سلامتی کونسل کا غزہ کی صورتحال کے...

حکایت: درویش کی بے خوفی

ایک بادشاہ اپنے مصاحبوں اور خدمت گاروں‌ کے ساتھ جنگل میں‌ شکار کی غرض‌ سے گیا، جہاں اس کی نظر ایک فقیر پر پڑی۔

وہ فقیر گرد و پیش سے بے نیاز اور ہر قسم کے خوف سے آزاد نظر آیا۔ گھنے جنگل میں‌ موذی جانور، حشرات اور درندوں‌ سے تو ہوشیار رہنا ہی پڑتا ہے، مگر بادشاہ نے اس کے چہرے پر خاص اطمینان دیکھا اور اسے اس شخص کی ڈھٹائی اور بے وقوفی تصور کیا۔

بادشاہ اور اس کے مصاحب جب اس کے قریب سے گزرے تو اس نے آنکھ اٹھا کر بھی ان کی طرف نہ دیکھا اور یہ بات بادشاہ کو بہت ناگوار گزری۔

اس نے بزرگ کی طرف اشارہ کرکے وزیر سے کہا کہ ایسے فقیر بھی بالکل جانوروں کی طرح ہوتے ہیں کہ انھیں معمولی ادب آداب کا بھی خیال نہیں ہوتا۔

بادشاہ کی ناگواری کا اندازہ کر کے وزیر اس درویش کے پاس گیا اور اس سے کہا کہ بابا جی، ملک کا بادشاہ آپ کے قریب سے گزرا اور آپ نے اتنا بھی نہیں کیا کہ اپنی عقیدت اور نیاز مندی ظاہر کرنے کے لیے کھڑے ہو جاتے اور ادب سے سلام کرتے؟

درویش نے بے پروائی سے جواب دیا، اپنے بادشاہ سے کہو کہ ادب آداب کا خیال رکھنے کی امید ان لوگوں سے کرے جنھیں اس سے انعام حاصل کرنے کا لالچ ہو۔ اس کے علاوہ اسے یہ بات بھی اچھی طرح سمجھا دو کہ ہم جیسے درویشوں کا کام بادشاہ کا خیال رکھنا نہیں بلکہ بادشاہ کا یہ فرض ہے کہ وہ ہماری حفاظت کرے۔ تُو نے سنا نہیں بھیڑیں گڈریے کی حفاظت نہیں کرتیں بلکہ گڈریا بھیڑوں کی حفاظت کرتا ہے۔

یاد رہے! بادشاہی ہمیشہ رہنے والی چیز نہیں۔ موت کے بعد بادشاہ اور فقیر برابر ہو جاتے ہیں۔ اگر تُو قبر کھول کر دیکھے تو یہ بات معلوم نہ کر سکے گا کہ یہ شخص جس کی کھوپڑی کو مٹی نے کھا لیا ہے۔ زند گی میں کس مرتبے اور شان کا مالک تھا۔

وزیر نے درویش کی یہ باتیں بادشاہ کو سنائیں تو اس نے فوری نصیحت حاصل کی اور فقیر پر مہربان ہو کر اس سے کہا کہ اگر کسی چیز کی ضرورت ہو تو بیان کرو، تمھاری ہر حاجت پوری کی جائے گی۔ فقیر نے بے نیازی سے کہا، بس ایک خواہش ہے اور وہ یہ کہ میرے پاس آنے کی تکلیف پھر کبھی نہ اٹھانا۔

اس پر بادشاہ نے کہا، اچھا مجھے کوئی نصیحت ہی کر دیجیے کہ دنیا اور آخرت دونوں‌ سنور جائیں۔

درویش بولا، میری نصیحت یہ ہے کہ ابھی جب تُو تاج اور تخت کا مالک ہے زیادہ سے زیادہ نیکیاں کر کہ عاقبت میں تیرے کام آئیں گی۔ یہ تاج اور تخت ہمیشہ تیرے پاس ہی نہ رہے گا اور جس طرح تجھ سے پہلے بادشاہ کے بعد تجھے ملا، اسی طرح تیرے بعد کسی اور کو مل جائے گا۔

شیخ سعدیؒ سے منسوب یہ حکایت ہمیں‌ بتاتی ہے کہ حرص اور لالچ ترک کرکے ہی انسان کو قلبی سکون اور دائمی راحت حاصل ہوتی ہے۔

مال دار اور خوش حال بھی جان لے کہ غریب کی طرح‌ وہ بھی دنیا سے جاتے ہوئے کفن کے سوا کچھ نہ لے جاسکے گا۔

Comments

- Advertisement -