تازہ ترین

کچے کے ڈاکوؤں کو اسلحہ فراہم کرنیوالے 3 پولیس افسران سمیت 7 گرفتار

کراچی : پولیس موبائل میں جدید اسلحہ سندھ اسمگل...

پاکستان کو آئی ایم ایف سے 6 ارب ڈالر قرض پروگرام کی توقع

وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ...

اسرائیل کا ایران پر فضائی حملہ

امریکی میڈیا کی جانب سے یہ دعویٰ سامنے آرہا...

وضو کا برتن اور قیمتی انگوٹھی

ایک بادشاہ کشتی میں‌ اپنے وزیروں کے ساتھ سفر پر نکلا۔ راستے میں نماز کا وقت ہوا تو کشتی دریا کے ایک کنارے پر لگا کر بادشاہ وضو کرنے لگا۔ اچانک اس کے ہاتھ سے وضو کرنے والا برتن پانی میں گر گیا۔

بادشاہ نے ایک وزیر کو آواز دی تو اس نے دریافت کیا، بادشاہ سلامت! برتن کس جگہ گرا تھا؟

بادشاہ نے اپنی ہیرے کی قیمتی انگوٹھی اتاری اور پانی میں پھینک کر کہا کہ اس جگہ پر گرا ہے۔ وزیر نے دریا میں چھلانگ لگا دی اور برتن لے کر باہر آ گیا۔ وزیر جب برتن باہر لے آیا تو حیران ہوا کہ بادشاہ کی انگوٹھی بھی اسی برتن میں پڑی ہے۔ وہ بادشاہ کو دیکھنے لگا اور کچھ دیر سوچنے کے بعد کہا۔ بادشاہ سلامت آپ کے اس غلام نے کئی سال آپ کی خدمت کی ہے، اب میں بوڑھا ہورہا ہوں اور آپ سے رخصت چاہتا ہوں۔ بادشاہ نے وزیر کو بہت روکا، لیکن اس کے بے حد اصرار پر اسے جانے کی اجازت دے دی۔

وزیر اسی وقت بادشاہ کو سلام کر کے جنگل کی طرف چل دیا۔ بادشاہ بھی اپنی کشتی پہ سوار ہو کر آگے کی طرف چل دیا۔ کافی دور جانے کے بعد یکایک دریا میں سیلاب اٹھا اور کشتی غوطہ کھا کر الٹ گئی۔ بادشاہ دریا میں ڈوبنے ہی والا تھا کہ اس کے ہاتھ میں ایک لکڑی کا صندوق آگیا۔ بادشاہ اس صندوق پر بیٹھ گیا۔ صندوق تیرتا ہوا کئی میل دور ایک انجان بستی کے ساتھ ساحل پر جا لگا۔ بادشاہ نیچے اترا اور اس بستی میں چلا گیا-بھوک اور پیاس سے بادشاہ کا حال برا تھا۔ اس کے دوسرے خدمت گار اور وزیر نجانے کہاں بہہ کر نکل گئے تھے۔

چلتے چلتے اچانک بادشاہ کی نظر ایک شخص پر پڑی جو اپنی ریڑھی پر بھنے ہوئے چنے بیچ رہا تھا۔ بادشاہ اس شخص کے پاس گیا اور اس سے کہا کہ میں یہاں مسافر ہوں، میں کشتی میں سفر کر رہا تھا کہ یکایک سیلاب آیا اور میرا تمام ساز و سامان اور اشرفیاں دریا میں بہہ گئیں۔ بڑی مشکل سے جان بچی اور ادھر پہنچا ہوں، اب میرے پاس کھانے کو کچھ نہیں۔ تمہارا احسان ہو گا کہ کچھ چنے کھانے کو دے دو؟ بادشاہ کی حالت دیکھ کر اس شخص نے کچھ چنے بادشاہ کو دے دیے۔ اور ساتھ ہی کہا کہ اگر تم روزانہ جنگل سے لکڑی کاٹ کر مجھے لا دو تو میں اس کے بدلے تمہیں بھنے ہوئے چنے دے دیا کروں گا۔ بادشاہ کو اس انجان بستی میں اپنا پیٹ پالنے کا کوئی دوسرا راستہ نظر نہیں آرہا تھا چانچہ اس نے یہی کام شروع کر دیا۔ وہ رات بھی اسی چنے والے کی کٹیا میں گزارتا اور صبح اٹھ کر جنگل کی طرف نکل جاتا۔ دن بھر کی مشقت کے بعد لکڑیاں کاٹ کر اس چنے والے کو دے دیتا۔ اسی حالت میں کئی سال گزر گئے۔

ایک دن بادشاہ حسبِ معمول جنگل سے لکڑیاں کاٹ کر آرہا تھا کہ راستے میں ایک بھنگی اپنا غلاظت سے بھرا ڈبہ اٹھائے جا رہا تھا، جیسے ہی بھنگی پاس سے گزرا تو بادشاہ کی لکڑیاں بھنگی کے ڈبے کو لگیں اور وہ ڈبہ بادشاہ کے اوپر گر گیا اور بھنگی نے پاس سے گزرنے والوں کے ساتھ مل کر بادشاہ کو خوب مارا۔ اس نے ڈبے میں بچی ہوئی غلاظت بھی بادشاہ کے اوپر انڈیل دی۔ یہ سب برداشت کرنا مشکل ہی نہیں‌ ایک بادشاہ کے لیے کسی عذاب سے کم نہ تھا، لیکن وہ مار کھا کر دوبارہ اپنی لکڑیاں اٹھا کے منزل کی طرف چل دیا۔

چلتے چلتے اچانک اسے شاہی ملبوس میں کچھ آدمی اور گھوڑے نظر آئے۔ بادشاہ کو اندازہ ہوا کہ اس سلطنت کا بادشاہ گزر رہا ہو گا۔ جب وہ شاہی گھوڑے قریب سے گزرے تو مفلوک الحال بادشاہ یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ وہ وزیر جو اسے راستے میں چھوڑ گیا تھا، وہ شاہی سواری پر جارہا ہے۔ وزیر نے ایک نظر اس مفلوک الحال بادشاہ کو دیکھا اور بنا رکے اپنے محل کی طرف چل دیا۔ وہ اب بادشاہ بن چکا تھا۔ محل میں پہنچ کر اس نے سپاہیوں کو حکم دیا کہ اس شخص کو پکڑ کر دربار میں پیش کیا جائے۔ سپاہیوں نے حکم کی تعمیل کی اور اس بادشاہ کو جو اب ایک بدترین زندگی گزار رہا تھا، پکڑ کر دربار میں اس کے سابق وزیر کے سامنے پیش کر دیا۔ وزیر جو اب بادشاہ بنا کھڑا تھا، اس نے سپاہیوں کو حکم دیا کہ اسے نہلا کر عمدہ لباس پہنایا جائے۔ جب اسے نہلا کر اور عمدہ لباس پہنا کر سپاہیوں نے دربار میں پیش کیا تو وزیر نے بادشاہ کو دیکھ کر کہا کہ واقعی ”ہر عروج کو زوال ہے۔”

بادشاہ سلامت جس دن آپ نے اپنی قیمتی انگوٹھی پانی میں پھینکی تھی، اس دن میں بہت حیران ہوا اور اس سے زیادہ حیران و پریشان میں اس بات پر ہوا کہ وہ انگوٹھی اسی برتن میں جا گری جسے میں‌ نکالنے کے لیے دریا میں‌ کودا تھا۔ اس دن میں سمجھ گیا تھا کہ بادشاہ اپنے عروج کی انتہا پر ہیں اور مجھے یقین تھا کہ اس قدر عروج کو اب زوال پذیر ہونا ہے جس کا وقت قریب ہے۔ چنانچہ میں آپ کو ادھر ہی چھوڑ آیا تھا۔ اور آج آپ زوال کی انتہا پر کھڑے ہیں۔ یہ کہہ کر وہ مسکرایا اور پھر بولا، اور اب عروج آپ کا منتظر ہے۔ اس کے بعد وزیر نے بادشاہ کو گھوڑے اور تحائف دے کر اس کی سلطنت کی طرف روانہ کر دیا۔

(لوک ادب، مصنف نامعلوم)

Comments

- Advertisement -