اگرچہ سینہ بہ سینہ اور قدیم کتابوں سے لی گئی اکثر کہانیوں کے مصنّف اور حکایتوں کے اصل وطن کا علم ہمیں نہیں ہے، مگر یہ عقل و شعور اور آگاہی کا خزانہ ہیں۔ یہ ایک ایسی ہی حکایت ہے۔
آپ نے بھی ایسی کہانیاں اور قصّے پڑھے ہوں گے جو بہت دل چسپ ہوتے ہیں اور ان میں ہمارے لیے کوئی سبق بھی پوشیدہ ہوتا ہے۔ یہاں ہم قارئین کی دل چسپی اور توجہ کے لیے جو حکایت نقل کررہے ہیں، اسے عربی ادب سے ماخوذ بتایا جاتا ہے۔
کسی بستی کے لوگ جھوٹ بولنے کے عادی تھے اور مقدمات میں سچ بات کہنے کے بجائے عدالت کے سامنے جھوٹی گواہی دینے اور مکر جانے کے لیے مشہور تھے۔
اس بستی کے ایک مرد و عورت نے نکاح کرلیا جس کا کھل کر اعلان تو نہیں کیا مگر نکاح شریعت کے مطابق تھا۔ یہ نکاح قاضی اور گواہوں کی موجودگی میں انجام پایا تھا۔
کچھ عرصے بعد میاں بیوی میں ناچاقی ہوگئی اور شوہر نے بیوی کو گھر سے نکال دیا، اور اسے تمام حقوق سے بھی محروم کر دیا۔ خاتون نے قاضی سے رجوع کیا اور اس کے روبرو کہا کہ شوہر نے گھر سے نکال دیا ہے۔
قاضی نے کچھ سوالات پوچھے اور تفصیل جاننے کے بعد کہا، تمہارے اس نکاح کی تو کسی کو خبر ہی نہیں۔ خاتون بولی، جناب ہمارا نکاح شریعت کے عین مطابق ہوا تھا مگر کسی وجہ سے ہم نے اس کو عام نہیں کیا۔
قاضی نے پوچھا: کیا تمھارے پاس اس نکاح کا کوئی گواہ ہے؟
خاتون نے کہا، جی قاضی صاحب! دو گواہ بھی تھے، ان ہی کی موجودگی میں یہ نکاح ہوا تھا۔ قاضی نے عورت کے کہنے پر اس کے سابق شوہر اور ان گواہوں کو طلب کرلیا جن کا نام اور پتہ عورت نے بتایا تھا۔ مگر شوہر نے بھری عدالت میں خاتون کو پہچاننے سے انکار کردیا جب کہ گواہوں نے بھی جھوٹ کا سہارا لیا وار کہا کہ وہ اس عورت کے نکاح کی تقریب میں شریک نہ تھے۔ انھوں نے بیک زبان ہور یہ تک کہہ دیا کہ ہم نے تو آج سے پہلے اس خاتون کو کبھی دیکھا تک نہیں۔
قاضی صاحب نے ان کو گہری نظروں سے دیکھتے ہوئے خاتون سے پوچھا۔ کیا تمہارے شوہر کے گھر پر کتّے ہیں؟
خاتون نے کہا جی ہاں۔
قاضی نے خاتون سے پوچھا۔ کیا آپ ان بے زبانوں کی گواہی کو قبول کریں گی؟
خاتون نے کچھ سوچ کر کہا، جی قاضی صاحب مجھے ان کی گواہی اور فیصلہ قبول ہوگا۔ اس پر قاضی نے حکم دیا کہ خاتون کو اس شخص کے گھر لے جایا جائے۔ اگر وہ کتّے اس خاتون کو دیکھ کر بھونکنے لگیں تو یہ عورت جھوٹی ہے۔ اور اگر وہ اسے دیکھ کر خوش ہوں اور اس کا استقبال کریں تو مجھے خبر کرو۔ یہ حکم جاری ہوا تو قاضی اور عدالت میں موجود لوگوں نے اس عورت کے شوہر اور گواہوں کی طرف دیکھنا شروع کردیا۔ ان کے چہروں پر خوف نمایاں تھا اور وہ اپنا جھوٹ پکڑے جانے کی وجہ سے پریشان نظر آنے لگے تھے۔
تب قاضی کی آواز کمرۂ عدالت میں گونجی کہ فیصلہ تو ہوچکا کہ کون سچا اور کون جھوٹا ہے۔ کیا ضرورت ہے کہ وقت برباد کیا جائے اور انصاف میں تاخیر ہو۔ اس کے ساتھ ہی قاضی نے سپاہیوں کو حکم جاری کیا کہ طلاق دینے والے اور نکاح کے گواہوں کو گرفتار کیا جائے اور جھوٹ بولنے اور ایک عورت کی حق تلفی کی سزا کے طور پر کوڑے لگائے جائیں۔
قاضی نے اپنے مشاہدے میں لکھا، وہ بدترین بستیاں ہوتی ہیں جن میں منصف کو انسانوں کے بجائے عقل و شعور سے عاری اور بے زبان جانوروں کی گواہی پر فیصلہ سنانا پڑتا ہے۔”