جمعہ, دسمبر 13, 2024
اشتہار

ہندو انتہا پسندی، سینکڑوں بھارتی مسلمان نقل مکانی پر مجبور

اشتہار

حیرت انگیز

گزشتہ ماہ بھارت کے علاقوں گروگرام اور نوح میں مسلم کش فسادات کے بعد سینکڑوں مسلمان اپنی جانیں بچانے لیے آبائی گھر چھوڑنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔

غیر ملکی میڈیا کے مطابق بھارت کے علاقوں گروگرام اور نوح میں گزشتہ ماہ 31 جالوئی کو مسلم کش فسادات میں 6 افراد ہلاک اور درجنوں شدید زخمی ہوگئے تھے جب کہ علاقے میں مسلمانوں کے خلاف بڑھتی نفرت انگیز مہم نے حالات کو مزید ابتر کر دیا ہے جس کے باعث سینکڑوں مسلمان اپنی جانیں بچانے کے لیے آبائی گھروں اور شہروں کو چھوڑنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔

گزشتہ ماہ 31 جولائی کو نوح ضلع میں ایک مذہبی جلوس کے دوران مبینہ طور پر پتھراؤ کے بعد مذہبی فسادات بھڑک اٹھے تھے جس کے نتیجے میں 6 افراد ہلاک جب کہ 88 شدید زخمی ہوئے تھے جب کہ ایک مسلمان کے گھر پر بلڈوزر چلا دیا تھا۔

- Advertisement -

متاثرہ شخص نے مقامی میڈیا کو بتایا کہ بی جے پی کی مذہبی اشتعال انگیزی کے باعث وہ طویل عرصے سے مسلم کش فسادات کا خطرہ محسوس کر رہے تھے۔ مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلانے کا ہی نتیجہ ہے ک گزشتہ دنوں یاترا کے دوران ہندوؤں نے مسلمانوں کے خلاف نازیبا کلمات کا استعمال کیا تھا۔

فرقہ وارانہ فسادات کے بعد نوح پولیس نے اب تک 230 لوگوں کو حراست میں لیا ہے جبکہ گروگرام پولیس نے 79 لوگوں کو گرفتار کیا ہے تاہم دونوں مقامات پر حالات تاحال معمول پر نہیں آسکے ہیں اور مشتعل افراد مسلم مخالف جذبات کو ہوا دینے کی مسلسل کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں۔

مسلم مخالف جذبات کو انتہا پسند ہندو مسلمانوں کا بائیکاٹ کرنے، ان کی دکانوں سے کچھ نہ خریدنے اور مکانات کرائے پر نہ دینے کے اعلانات کر رہے ہیں جو حالات کو مزید کشیدہ بنا رہے ہیں۔ جس کے باعث ان دونوں علاقوں سے سینکڑوں مسلمان اپنی جانیں بچانے کے لیے آبائی گھر چھوڑ کر محفوظ مقام پر منتقل ہو رہے ہیں۔

اس حوالے سے گروگرام سے ہجرت کرنے والے مزدور عمران علی کا کہنا ہے کہ وہ 31 جولائی کے پرتشدد واقعات کے بعد مارے خوف کے ہجرت کر گیا اور میرے گھر والے نہیں چاہتے کہ میں یہاں کمانے کے لیے واپس آؤں۔

ایک اور مسلم شہری احمد خان نے کہا کہ حالات بہت خراب ہیں۔ پولیس اور انتظامیہ اپنے ہی ملک میں مسلمانوں کی حفاظت کرنے میں ناکام رہی ہے۔ ہندو یہ سمجھتے ہیں کہ اس دیس میں ہمارا کچھ بھی نہیں بلکہ سب کچھ ان ہی کا ہے یعنی پولیس، انتظامیہ اور سب کچھ۔

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں