شہر اچل پور، جو صوبہ مہا راشٹر کے علاقے ودربھ میں ضم ہوگیا، کبھی سلطنتِ برار کا پایہ تخت ہوا کرتا تھا۔
"ست پڑا پہاڑ” کے دامن میں بسا یہ شہر ماضی میں شاعروں، ادیبوں، صوفیوں اور فن کاروں کی آماج گاہ رہا ہے۔
دہلی سے حیدر آباد دکن جانے والے قدیم اور واحد راستے میں واقع اس بستی سے بڑے بڑے بادشاہوں، سورماؤں، سپاہ سالاروں اور بزرگوں کے ساتھ ساتھ اس دور میں چوروں، ڈاکوؤں اور ٹھگوں کا گزر بھی ہوا ہے۔
گمان غالب ہے کہ برار میں اسلام کی آمد شاہ دولھا رحمٰن غازی ؒ کے معرکۂ جہاد (392ھ بمطابق 1002) سے ہوئی، اچل پور میں عظیم الشّان تاریخی مدرسوں کا قیام عمل میں آیا، اور یہاں مزارات بنے۔ ہندو دیو مالائی داستانوں کی کتابوں میں اس کا نام اچل پور ہی ملتا ہے۔ مختلف ادوار میں اسے اڑس پور، ایلچا پور اور ایلچ پور بھی کہا جاتا رہا ہے۔
اچل پور کی ادبی تاریخ بھی اپنے اندر بلا کی آب و تاب رکھتی ہے۔ مراٹھی زبان کی پہلی نثر بعنوان ’لیلا چرتر‘ یہیں لکھی گئی۔ جہاں تک اردو شعر و ادب کا سوال ہے یہ شہر ہمیشہ ہی علم و فن کا گہوارہ رہا ہے۔
ایک وقت تھا جب یہاں پر ملک بھر سے طالب علم اور تشنگانِ ادب اپنی پیاس بجھانے آتے تھے۔ یہاں سیکڑوں کی تعداد میں ادیب و شاعر پیدا ہوتے رہے ہیں جن میں ودربھ کا پہلا اردو نثر نگار حاجی امام الدّین عرف حاجی محمد عبداللہ اور پہلا صاحب دیوان ہندو شاعر انبا پرشاد طرب اسی شہر کی ہواؤں کے پروردہ تھے۔
(حیدر بیابانی کے مضمون سے خوشہ چینی)