تازہ ترین

"لاہور لاہور ہی تھا!”

"پہننے اوڑھنے، کھانے پینے، لکھنے پڑھنے اور دوسری کئی باتوں میں لاہور والوں کا اپنا ایک الگ رنگ رہا ہے۔

یہاں کی پنجابی بول چال کا انداز بھی اس خطّے کے دوسرے شہروں سے مختلف تھا۔ اردو تحریر و تقریر میں بھی یہاں کے پڑھے لکھے طبقے نے اپنا ایک مخصوص آہنگ اختیار کیا۔

شروع شروع میں دلّی اور لکھنؤ والے اس پر ہنستے مگر بعد میں اس کا لوہا مانا گیا۔ اس شہر کی زندگی کو پنجابی مزاج کی خوبیوں اور خامیوں نے ایک خاص سانچے میں ڈھالا۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں کے بازاروں، گھروں اور محفلوں میں ہمیں ایک خاص فضا ملتی ہے۔ اسی طرح جیسے دلّی، لکھنؤ، کلکتہ، مدراس اور حیدرآباد کا اپنا ایک خاص ماحول ہے۔

یہاں کے نوجوان ملک بھر میں اپنی زندہ دلی کی وجہ سے مشہور تھے اور انھوں نے زندگی کے بہت سے شعبوں میں اپنے آپ کو ممتاز کیا۔ اس میں شک نہیں کہ بیسویں صدی میں اس شہر کے رہنے والوں نے ہندوستان کے نام کو چار چاند لگائے۔ اقبال جیسا شاعر، چغتائی جیسا مصوّر، گاما جیسا پہلوان، عطاء اللہ بخاری جیسا خطیب، لاجپت رائے جیسا سیاست دان اور بھگت سنگھ جیسا انقلابی۔ یہ سب لاہور اور اس کی ہمہ رنگ زندگی سے وابستہ تھے۔ اس لیے کہنے والے اب بھی کہتے ہیں کہ "لاہور لاہور ہی تھا۔”

دلّی میں اب تک ہزاروں لوگ ایسے ہیں جو پرانے لاہور کو، اس کے گلی کوچوں، عمارتوں اور ان میں رہنے والوں کو یاد کرتے ہیں۔ یہ لوگ ترستے ہیں کہ زندگی میں ایک بار پھر سے اپنے شہر کی جھلک دیکھ آئیں، مگر اب انھیں سرحد پار کرنے کی اجازت مل گئی تو کیا وہ اس لاہور کو دیکھ سکیں گے جسے وہ 1947ء میں چھوڑ آئے تھے؟”

(معروف ادیب اور مترجم سوم آنند کی کتاب ‘باتیں لاہور کی’ سے اقتباس)

Comments

- Advertisement -