تازہ ترین

پاکستان کے بیلسٹک میزائل پروگرام کے حوالے سے ترجمان دفتر خارجہ کا اہم بیان

اسلام آباد : پاکستان کے بیلسٹک میزائل پروگرام کے...

ملازمین کے لئے خوشخبری: حکومت نے بڑی مشکل آسان کردی

اسلام آباد: حکومت نے اہم تعیناتیوں کی پالیسی میں...

ضمنی انتخابات میں فوج اور سول آرمڈ فورسز تعینات کرنے کی منظوری

اسلام آباد : ضمنی انتخابات میں فوج اور سول...

طویل مدتی قرض پروگرام : آئی ایم ایف نے پاکستان کی درخواست منظور کرلی

اسلام آباد: عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے...

شامی پناہ گزین: ترکی کے بحرانی دور میں "سیاسی ہتھیار” کیسے بنے؟

شامی مہاجرین کی ایک بڑی تعداد ترکی میں آباد ہے، تاہم بدلتے ہوئے سیاسی و معاشی حالات کی وجہ سے ترک عوام بھی اب ان سے چھٹکارہ چاہتے ہیں۔

ایک محتاط اندازے کے مطابق اس وقت ترکی میں تقریبا سینتیس لاکھ شامی مہاجرین سکونت پذیر ہیں، سال دوہزار بارہ سے ان شامی مہاجرین نے ترکی کا رخ شروع کررہا ہے، ان کی خواہش تھی کہ ایسے پرامن مقام پر پہنچ جائیں جہاں سے وہ یورپی ممالک جاسکیں۔

سال دوہزار سولہ کا معاہدہ

تاہم سن دوہزار سولہ میں ترکی اور یورپی یونین کے درمیان ایک ڈیل ہوئی، جس کے تحت انقرہ حکومت نے ان شامیوں کو یورپ جانے سے روکنے پر آمادگی ظاہر کی، جس کے بدلے میں یورپی یونین نے ترکی کو مالی مدد فراہم کرنے کا وعدہ کیا، تاہم بدلتے ہوئے سیاسی و معاشی حالات کی وجہ سے ترک عوام بھی اب ان سے چھٹکارہ چاہتے ہیں۔

سیاسی و اقتصادی مسائل

ترکی کی کرنسی لیرا کی قدر میں تاریخی گراوٹ، افراط زر اور مہنگائی میں اضافہ اور پھر اس پر یوکرین جنگ نے انقرہ کے لیے کئی نئے سیاسی اور مالی مسائل پیدا کر دیئے ہیں۔ اس صورتحال میں ترکی میں آباد شامی مہاجرین کچھ زیادہ ہی بے یقینی کا شکار ہو گئے ہیں۔

شامیوں وطن واپس بھیجنے کے لئے ترک کوششیں

شامی حالات پر نگاہ رکھنے والے ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ وہاں کے حالات ایسے نہیں کہ مہاجرین کو واپس روانہ کیا جائے، لیکن ترک صدر کہہ چکے ہیں کہ وہ شام میں تعمیر نو اور بحالی چاہتے ہیں تاکہ شامیوں کو مرحلہ وار واپس بھیجا جا سکے۔Syrian refugees in Turkey: Political tool in crisis times | The Straits  Times

ترکی نے سال دوہزار سولہ سے شام میں اپنے فوجی تعینات کر رکھے ہیں، جو وہاں تعمیر نو اور بحالی کے کاموں میں بھی مصروف ہیں، ترک صدر نے کہا ہے کہ وہ شام کو رہنے کے قابل بنانے کے لیے مزید اقدامات بھی کریں گے۔

ترکی نے اپنے سرحدی علاقوں سے متصل شام میں ایک محفوظ زون بھی بنا لیا ہے جبکہ ادلب میں کئی ہزار گھر بھی تعمیر کر دیئے ہیں، تاہم شائد صرف یہ شامی مہاجرین چھت اور چار دیواری سے کچھ زیادہ کے حق دار ہیں۔

اردوآن یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ وہ ان شامی مہاجرین کو ‘قاتلوں‘ کے حوالے نہیں کریں گے، یعنی جب تک شام کے حالات پرامن نہیں ہوتے، شامیوں کی حفاظت ان کا مشن ہے، لیکن سیاسی طور پر اب وہ کچھ مشکل کا شکار ہوتے جا رہے ہیں کیونکہ اگر وہ اپنے اس نعرے پر برقرار رہتے ہیں تو ووٹرز کی حمایت سے محروم بھی ہو سکتے ہیں۔Syrian refugees in Turkey: Political tool in crisis times | The Straits  Timesادھر اردوان کے سخت حریف اور صدارتی امیدوار کمال کلچدآلو نے کھلے عام کہا کہ اگر وہ آئندہ صدارتی انتخابات میں کامیاب ہو گئے تو وہ تمام شامی مہاجرین کو واپس بھجوا دیں گے، کمال کی سیاسی پارٹی سی ایچ پی کا یہ عوامی نعرہ ترک ووٹرز کی توجہ حاصل کرنے کا باعث بنا ہے۔ اسی طرح انتہائی دائیں بازو کی کٹر سیاسی جماعت وکٹری پارٹی نے مہاجرین کے ‘خاموش حملے‘ کو پارٹی نعرہ بنا لیا ہے۔

روس کی دھمکی اور مہاجرین کے نئے بحران کا اندیشہ

ترکی میں آنے والے شامی مہاجرین میں زیادہ تر شہری علاقوں میں شفٹ ہو چکے ہیں اور کیمپوں میں رہنے والے مہاجرین کی تعداد انتہائی کم ہے۔

اس تمام صورتحال میں شامی صدر بشار الاسد کے حامی ملک روس نے دھمکی دی ہے کہ وہ اقوام متحدہ کی اس قرار داد کی مدت میں توسیع مخالفت کرے گا، جس کے تحت شام میں تمام تر امدادی سامان براستہ ترکی جانے کا کہا گیا ہے۔ اس حوالے سے جولائی میں فیصلہ ہونا ہے کہ شام میں امداد پہنچانے کا راستہ کیا ہونا چاہیے۔UNHCR - Winter preparations for Syrian refugees and displaced in full swingعمر اردوان کے مطابق اگر ایسا ہوا تو ترکی میں اضافی چالیس لاکھ مہاجرین کی آمد کے خطرات بڑھ جائیں گے، جو بعدازاں یورپ کا رخ کرنے کی کوشش بھی کریں گے۔ یوں ترکی اور یورپ کو مہاجرین کے ایک نئے سمندر کا سامنا ہو سکتا ہے کیونکہ یوکرین جنگ کے باعث یوکرینی مہاجرین کی ایک بڑی تعداد یورپ پہنچ رہی ہے۔

Comments

- Advertisement -