تازہ ترین

بابر اعظم کو دوبارہ قومی ٹیم کا کپتان بنانے کا فیصلہ ہو گیا

پاکستان کرکٹ بورڈ نے بابر اعظم کو ایک بار...

چین پاکستان معاہدوں کے حوالے سے آئی ایم ایف کا اہم بیان

عالمی مالیاتی ادارے کا کہنا ہے کہ چین پاکستان...

جون تک پی آئی اے کی نجکاری کا عمل مکمل کرلیا جائے گا، وفاقی وزیر خزانہ

کراچی : وزیرخزانہ محمداورنگزیب کا کہنا ہے کہ پی...

چیئرمین پی ٹی آئی کیخلاف کتنے مقدمات درج ہیں؟

کراچی : چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان ان دنوں اپنے 27 سالہ سیاسی کیریئر کے بدترین حالات سے گزر رہے ہیں اور ان کیخلاف اس وقت درجنوں مقدمات عدالتوں میں زیر سماعت ہیں، ان پر گزشتہ سال قاتلانہ حملہ بھی ہوچکا ہے جب کہ وہ خود کو قتل کیے جانے، نااہل کیے جانے اور پی ٹی آئی پر پابندی لگائے جانے کے خدشات کا کئی بار اظہار کرچکے ہیں۔

حالیہ دنوں میں پی ٹی آئی کے کئی بڑے نام 9 مئی کے واقعات کے بعد ان سے راستے جدا کرچکے ہیں جن میں کچھ تو پی ٹی آئی کے بانیوں اور کچھ ابتدائی دور کے ساتھیوں میں شمار کیے جاتے ہیں۔

تحریک انصاف کے چیئرمین اور سابق وزیر اعظم عمران خان اس وقت اپنے خلاف ملک کے مختلف شہروں میں درج کیے جانے والے 121 مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں، جن میں غداری، توہین مذہب، تشدد، دہشت گردی پر اکسانے، خاتون جج کو دھمکی، توہین عدالت، ممنوعہ فنڈنگ، الیکشن کمیشن کے فیصلے کے خلاف ہنگامہ آرائی، القادر یونیورسٹی سب سے نمایاں ہیں جبکہ ٹیریان کیس اور دوران عدت نکاح کیس عدالتوں سے خارج کر دیے گئے ہیں۔

حکومت کی جانب سے 22 مارچ کو لاہور ہائی کورٹ میں جمع کرائی گئی رپورٹ کے مطابق چیئرمین تحریک انصاف کے خلاف پنجاب میں 83 جبکہ وفاقی دارالحکومت میں 43 مقدمات درج ہیں، عمران خان کو بطور سابق وزیراعظم پاکستان کی تاریخ میں سب سے زیادہ کیسز کا سامنا ہے۔

ستر سالہ چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کے وکلاء نے حال ہی میں اسلام آباد ہائی کورٹ میں تمام درج مقدمات کی فہرست جمع کرائی جس میں کہا گیا ہے کہ عمران خان کے خلاف صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں 30 مقدمات درج اور نوٹسز جاری کیے گئے ہیں۔ ان کیخلاف یہ تمام مقدمات غداری، توہین مذہب، تشدد اور دہشت گردی پر اکسانے جیسے مختلف الزامات سے متعلق ہیں۔

فہرست کے مطابق عمران کے خلاف لاہور میں دہشت گردی کے 12 اور فیصل آباد میں 14 مقدمات درج ہیں، عمران خان کے خلاف ملک بھر میں دہشت گردی کے 22مقدمات درج ہیں۔ آئیے مذکورہ مقدمات میں سے چند اہم مقدمات کی مختصراً تفصیل پر روشنی ڈالتے ہیں۔

توشہ خانہ کیس

گزشتہ سال 19 نومبر کو قومی احتساب بیورو (نیب) نے سابق وزیراعظم، ان کی اہلیہ اور کابینہ کے دیگر ارکان کو ملنے والے تحائف کی فروخت کے حوالے سے ان کی اصل قیمت ظاہر نہ کرنے کا نوٹس لیا تھا اور کہا گیا تھا کہ سابق وزیراعظم کو ملنے والے تحائف کی اصل قیمت اور قیمت فروخت میں واضح فرق تھا۔

اس کے علاوہ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے توشہ خانہ ریفرنس میں الزامات ثابت ہونے پر سابق وزیر اعظم اور چیئرمین پاکستان تحریک انصاف کو قومی اسمبلی کی رکنیت سے نااہل قرار دیتے ہوئے ان کے خلاف قانونی کارروائی کرنے کا حکم دیا تھا۔

خاتون جج کو دھمکی کا کیس

گزشتہ سال 20 اگست کو چیئرمین پی ٹی آئی نے ایف نائن پارک اسلام آباد میں ایک جلسے کے دوران اپنے خطاب میں خاتون سیشن جج زیبا چوہدری کو مبینہ طور پر دھمکی دی تھی۔ جس کیخلاف 21اگست کو سول مجسٹریٹ کی مدعیت میں اسلام آباد کے مارگلہ تھانے میں عمران خان کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا تھا جس میں پہلے دہشت گردی کی دفعات شامل کرکے بعد میں حذف کر دی گئیں اور کیس سیشن کورٹ کو بھیجا گیا تھا۔

فارن فنڈنگ کیس

پاکستان تحریک انصاف کے خلاف ممنوعہ ذرائع سے فنڈز حاصل کرنے کا معاملہ الیکشن کمیشن میں کوئی سیاسی مخالف جماعت نہیں بلکہ تحریک انصاف کے اپنے بانی اراکین میں سے ایک اکبر ایس بابر سال 2014 میں لے کر آئے تھے۔

اکبر ایس بابر نے الزام عائد کیا گیا تھا کہ پاکستان تحریک انصاف نے بیرون ممالک مقیم پاکستانیوں کے علاوہ دیگر غیرملکیوں سے بھی فنڈز حاصل کیے تھے جس کی پاکستانی قانون اجازت نہیں دیتا۔

اس کے علاوہ مسلم لیگ ن کے رہنما حنیف عباسی نے جب عمران خان کی اہلیت کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا تو اس کے ساتھ ایک متفرق درخواست فارن فنڈنگ کے حوالے سے بھی دی گئی تھی، جس پر سپریم کورٹ نے سال 2016 میں فیصلہ دیا تھا کہ سیاسی جماعتوں کی فنڈنگز کی تحقیقات کا اختیار الیکشن کمیشن کے پاس ہے۔

القادر یونیورسٹی کیس میں گرفتاری

اسلام آباد پولیس نے انسپکٹر جنرل (آئی جی) اکبر ناصر خان کے حوالے سے ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہا تھا کہ سابق وزیر اعظم کو اس کیس کے سلسلے میں گرفتار کیا گیا ہے جس میں الزام ہے کہ عمران خان اور ان کی اہلیہ نے 50 ارب روپے کو قانونی حیثیت دینے کے لیے ایک رئیل اسٹیٹ فرم سے اربوں روپے حاصل کیے تھے۔

سابق وزیر اعظم اپنی اہلیہ بشریٰ بی بی اور پی ٹی آئی کے دیگر رہنماؤں کے ساتھ پی ٹی آئی حکومت اور پراپرٹی ٹائیکون کے درمیان سمجھوتہ سے متعلق نیب انکوائری کا سامنا کر رہے ہیں جس سے مبینہ طور پر قومی خزانے کو 190 ملین پاؤنڈ کا نقصان پہنچا۔

ان پر القادر یونیورسٹی کے قیام کے لیے موضع بکرالا، سوہاوہ میں 458 کنال (23.16 ہیکٹر) سے زائد اراضی کا ناجائز فائدہ حاصل کرنے کا الزام ہے۔

یاد رہے کہ پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان کو اپریل2022 میں اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے تحریک عدم اعتماد پیش کیے جانے کے بعد اقتدار سے ہٹا دیا گیا تھا، جس پر انہوں نے الزام عائد کیا تھا کہ روس، چین اور افغانستان کے بارے میں ان کی خارجہ پالیسی اور آزادانہ فیصلوں کی وجہ سے انہیں نشانہ بنانے والی امریکی قیادت کی آشیرباد سے اپوزیشن جماعتوں نے پی ٹی آئی حکومت کیخلاف منظم سازش کی۔

عمران خان 2018 میں اقتدار میں آئے، وہ واحد پاکستانی وزیر اعظم ہیں جنہیں پارلیمنٹ میں عدم اعتماد کے ووٹ  کے ذریعے عہدے سے معزول کیا گیا تھا۔

Comments

- Advertisement -