تازہ ترین

ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کی کراچی آمد، مزار قائد پر حاضری

کراچی: پاکستان کے تین روزہ سرکاری دورے پر موجود...

ایرانی صدر کی مزار اقبال پر حاضری، پھول چڑھائے اور فاتحہ خوانی کی

لاہور: ایران کے صدر ابراہیم رئیسی کی لاہور آمد...

پاک ایران سرحد پر باہمی رابطے مضبوط کرنے کی ضرورت ہے، آرمی چیف

راولپنڈی: آرمی چیف جنرل عاصم منیر کا کہنا ہے...

پی ٹی آئی دورِحکومت کی کابینہ ارکان کے نام ای سی ایل سے خارج

وفاقی حکومت نے پی ٹی آئی دورِحکومت کی وفاقی...

تقسیم کی ادھوری کہانی – امرت کور

میں نے واہگہ بارڈر کراس کیا اور پاکستان کی سر زمین پر آگیا۔ ضروری کارروائی کے بعد جب میں سامان لے کر نکلا تو زویا میرے انتظار میں تھی۔ مجھے دیکھتے ہی والہانہ انداز میں میری طرف بڑھی اور اپنے جذبات کی شدت میرے ہاتھ بھینچ کر کی۔میں نے رات کمپیوٹر پر اس سے رابطہ کر کے بتا دیا تھا کہ وہ مجھے یہاں سے لے لے۔
”کیسی ہو؟“ میں نے اس کے چہرے پر پھیلی ہوئی سرخی کو دیکھ کر پوچھا۔
”میں ٹھیک ہوں۔ تم نے رات بتایا ہی نہیں کہ یہ تم انڈیا کیسے پہنچ گئے؟“
”ساری باتیں یہیں بتادوں یا پھر گاڑی میں جا کے، کرلیں“۔ میں نے کہا تو وہ خجل سی ہو گئی۔ وہ میرے ساتھ بیگ گھسیٹتی ہوئی پارکنگ کی طرف بڑھی۔ وہ اپنی ہنڈا اکارڈ لائی تھی۔ سامان رکھنے کے بعد جب ہم وہاں سے چلے تو میں نے بھان سنگھ کے مشورے والی ساری بات اسے بتا دی۔ وہ سرخ ہوتے ہوئے چہرے کے ساتھ سنتی رہی۔ میں نے امرت کور کے بارے میں باقی ساری بات چھپالی تھی۔ وہ بڑی سنجیدگی سے سنتی رہی اور اس کے چہرے پر حیرت کے ساتھ ساتھ تجسس بھی ابھرتا چلا گیا۔ یہاں تک کہ ہم مغل پورہ پار کر آئے اور پھر وہیں آگے سے اس نے ماڈل ٹاؤن کی طرف ٹرن لے لیا۔ وہ بھی بھان سنگھ کو جانتی تھی، اس لیے اس کے گھر والوں کے بارے میں پوچھتی رہی۔ پھر بولی۔
”ویسے میں بہت حیران ہو ئی تھی جب تم نے مجھے بتایا کہ تم انڈیا میں ہو۔ اب پتہ چلا ہے کہ تم مجھے پانے کے لیے اس کے گاؤں میں چلے گئے“۔


اس ناول کی گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے لنک پر کلک کریں


”دیکھو….! میں تو آخری کوشش کروں گا تمہیں پانے کے لیے، باقی رب کو منظور کہ ہمارا ملن ہو گا یا نہیں“۔ میں نے کاندھے اچکاتے ہوئے کاہ۔
”ویسے میں تمہیں ایک بات بتاؤں۔ اگر تم مجھے رات ہی یہ بات بتا دیتے تو میں کم از کم امرت کور کو دیکھ لیتی اسے کمپیوٹر کے سامنے لا کر….“
”نہیں ایسا ممکن نہیں تھا“۔
”اچھا یاد آیا، تم نے اپنے گھر والوں کو نہیں بتایاکہ تم انڈیا گئے ہوئے ہو۔ اگر خدانخواستہ….“ اس نے کافی حد تک خوف زدہ ہوتے ہوئے کہا۔
”ہاں، یہ رسک تو میں نے لے لیا، میں نے چاہا تھا کہ یہاں پہنچ کر، ماحول دیکھ کر رہنے کے بارے میں فیصلہ کروں گا اور تب فون پر بتا دوں گا، لیکن بس وہاں میرا دل ہی نہیں لگا۔ اس لیے بتایا ہی نہیں، تجھے بلالیا، تاکہ تھوڑی دیر تمہارے ساتھ گزار سکوں، پھر پتہ نہیں“۔
”ہاں، یہاں آ کر میں نے دیکھا، کوئی بھی نہیں تھا، چلو کھانا کھاتے ہیں“۔ اس نے اچانک کہا اور ایک مہنگے ریستوران کے سامنے لے جا کر گاڑی کھڑی کر دی۔
آرام سے بیٹھ جانے کے بعد اس نے ویٹر کو آرڈر دیا۔ پھر میری آنکھوں میں براہ ِراست دیکھتے ہوئے وہ مسکرائی اور بولی۔
”تو پھر سنو….! تمہارا انڈیا جانا نیک کام ثابت ہو اہے یا کچھ اور میں نہیں جانتی، لیکن یہ ہو گیا ہے کہ کم از کم پاپا پچاس فیصد مان گئے ہیں“۔
”سچ؟“ میں نے حیرت سے ششدر ہوتے ہوئے کہا۔
”جی، سچ“۔ اس نے مسکراتے ہوئے کہا۔
”کیسے ممکن ہو گیا یہ ….؟“ میں نے خوش ہوتے ہوئے کہا۔
”اصل میں میرے گھر والے اس وقت بہت زیادہ پریشان ہو گئے جب میں نے بریڈ فورڈ ہی سے انہیں مشورے کے لیے بات بتائی، ان کا خیال یہ تھاکہ میں نے شادی کرلی ہے اور اب ویسے ہی مصلحت کے طور پر بتا رہی ہوں۔پھر ذات پات کی بات تو آڑے تھی ہی یہاں آ کر میں نے انہیں باورکرا دیا کہ ایسا کچھ نہیں ہے۔ میں نے والدین کے حکم کے خلاف ایک قدم بھی نہیں اٹھایا۔ ان کی جو مرضی ہے، وہ وہی کریں۔ بہر حال میری پسند یہی ہے کہ میں بلال سے شادی کرنا چاہتی ہوں۔ میں نے تمہارے پاپا اور فیملی کے بارے میں انہیں بتا دیا اور خود خاموش ہو گئی۔“
”پھر کیا ہوا؟“ میںتجسس سے پوچھا۔
”پھر ماما ہی ان سے بات کرتی رہی۔ ان کا موقف تھا کہ اگر بیٹی سعادت مند ہے اور وہ اپنے والدین کا خیال کر رہی ہے تو ہمیں بھی اس کی خوشیوں کا خیال کرنا چاہئے۔ باقی رہی ذات پات تو اسلام میں کہیں ایسا نہیں ہے کہ ان کے شادی نہ ہو سکے اور پھر ایک ذرا سا لالچ بھی ان کے سامنے ہے۔“
”و ہ کیا ؟“میں نے کہا۔
”اچھا بزنس، فیملی، میں بھی تمہارے ساتھ بزنس میں آسکتی ہوں۔ اپنی فیملی کے سرمایے کو بھی تحفظ دے سکتی ہوں۔ اب جیسے ہی انہیں تمہارے آنے کی اطلاع ملتی ہے، دیکھیں وہ کیا فیصلہ کرتے ہیں، آر یا پار….“
یہ کہتے ہوئے وہ دھیرے سے ہنس دی۔ تب میں نے قہقہہ لگا دیا۔ اس وقت مجھے لگا جیسے میں نے برسوں بعد کوئی قہقہہ لگایا ہو۔
”لگتا ہے وہ تیری امرت کور کی دعا یا پرارتھنا یا جو کچھ بھی وہ کرتے ہیں، قبول ہو گئی ہے“۔
”میں نہیں مانتا اور اس کی ڈھیرے ساری دلیلیں ہیں، ممکن ہے تم اس کے حق میں ڈھیر ساری دلیلیں دے دو۔ اس لیے چھوڑو اس بحث کو، تم نے تو ایک نئی زندگی دے دی ہے مجھے ۔ “میں نے فرطِ مسرت سے کہا۔
”ایسا تو ہے“۔ یہ کہہ کر وہ یونہی تفصیلات بتاتی رہی۔ بریڈ فورڈ سے آنے کے بعد سے لے کر اب تک جو ہوا وہ بتاتی رہی۔ اس دوران کھانا آگیا۔ ہم نے کھایا۔ جب ہم فارغ ہوئے تو اس نے پوچھا۔
”اچھا اب بتاؤ، کیا پروگرام ہے، تمہیں گھر چھوڑ آؤں یا ٹیکسی وغیرہ میں جاؤ گے؟“
”او چل، گھر ہی چھوڑ دو۔ میرے خیال میں تم پہلے تو کبھی نہیں گئی ہو اس طرف“۔ میں نے پوچھا تو وہ ہنستے ہوئے بولی۔
”ایک بار گئی تھی یونہی…. وہ جو شاعر کہتے ہیں۔ کوچہ یار میں دشت نور دی کرنے…. کہ دیکھو تو سہی کہ محبوب کے دیار کو راستہ کیسا جاتا ہے“۔
”واہ…. واہ…. مطلب، میرا گھر دیکھنے کے چکر میں۔ خیر، چلو چلتے ہیں“۔ میں نے اٹھتے ہوئے کہا اور ہم دونوں ریستوران سے نکلتے چلے گئے۔
زویا نے گھر کے مین گیٹ پر ہی گاڑی روک دی۔ پھر وہیں بیٹھے ڈگی کھولتے ہوئے کہا۔
”سامان اتارو اور چلو، میں نے پورچ تک نہیں جانا“۔
”یار آؤ، اندر سے بھی ایک نظر جھانک لو“۔ میں نے ہنستے ہوئے کہا۔
”ایک ہی بار آؤں گی اور پھر ہمیشہ رہوں گی۔ چل اب اتر….“ اس نے بھی ہنستے ہوئے کہا تو میں نے اتر کر ڈگی سے سامان باہر نکالا، ڈگی کو بند کیا۔میرا ارادہ تھا کہ زویا کے پاس جاکر اسے الوداع کہوں، تبھی میرے کاندھے پر کسی نے ہاتھ رکھ دیا۔ میں نے پلٹ کر دیکھا تو دادا نور محمد کھڑے مسکرا رہے تھے۔
”اوئے پتیندرا….! ایک دم آگئے ہو ۔ بتایا ہی نہیں“۔ یہ کہتے ہوئے انہوں نے مجھے گلے لگا لیا۔ میں نے زویا کی طرف دیکھا وہ چہرہ چھپاتے ہوئے نکلنے کی تیاری میں تھی۔
”او یار دادا….! مجھے بعد میں مل لینا، پہلے اس لڑکی کو مل لیں…. سر پر پیار دے دیں….“ میں نے زویا کی طرف اشارہ کیا تو وہ حالات کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے اتر آئی۔ وہ آہستہ قدموں سے چلتے ہوئے ان کے قریب آگئی۔ وہ بڑے غور سے اس کی طرف دیکھ رہے تھے۔ پورے بدن پرعبایا اور سکارف، ان کی نگاہوں میں ستائش تھی۔ اس نے سلام کیا تو جواب دے کر مجھ سے پوچھا۔
”شادی کرلی ہے یا….“
”ابھی کرنی ہے…. بس آپ اسے پیار دیں تو یہ جائے….“


دوام – مکمل ناول پڑھنے کے لیے لنک پر کلک کریں


دادا نور محمد نے بڑے خلوص سے اسے پیار دیا۔ پھر اپنی جیب میں ہاتھ ڈال کر ایک بڑا نوٹ نکالا اور اسے دیتے ہوئے بولے۔
”بیٹی….! پہلی بار جب گھر آتے ہیں نا، تو بیٹی کو کچھ نہ کچھ دیتے ہیں، فی الحال تو اتنا ہی قبول کر، میں سمجھ گیاکہ یہ پتیندر تجھے ابھی جانے کو کیوں کہہ رہا ہے“۔
زویا نے شرماتے ہوئے وہ نوٹ پکڑا، پھر سلام کیا اور اس قدر تیزی سے گاڑی میں جا بیٹھی کہ مجھے بھی پتہ نہ چلا، اگلے چند لمحوں میں وہ نگاہوں سے اوجھل ہو گئی۔ تبھی وہ ہنستے ہوئے بولے۔
”اگر میں نماز پڑھ کر واپس نہ آرہا ہوتا تو یہ منظر دیکھ ہی نہ سکتا“۔ پھر چونک کر میری طرف دیکھا اور بولے۔ ”تُو اچانک…. آگیا۔ اپنے آنے کے بارے میں بتایا ہی نہیں“۔
”داداجی، آپ اندر چلو، میں نے آپ سے بہت باتیں کرنی ہیں۔ ساراکچھ بتاؤں گا، وہ کچھ بھی جو آپ بھی نہیں جانتے“۔
”ایسا کیا ہے بلالے….“ انہوں نے خوشگوار حیرت سے کہا۔
”سب کچھ بتاؤں گا، فی الحال آپ آئیں“۔
ہماری باتوں کے دوران چوکیدار باہر آگیا تھا۔ اس نے سلام کرتے ہوئے سامان اٹھایا۔ تو ہم دونوں دادا پوتا اندر کی جانب بڑھ گئے
میں نے پورا ایک دن اور ایک رات یہی سوچتے ہوئے گزار دی کہ دادا جی سے کس انداز میں بات کروں گا۔ جھتوال کی ساری باتوں میں ایسی کوئی بات نہیں تھی جو انہیں دکھ نہ دیتی۔ ساری روداد ہی غم سے بھری ہوئی تھی۔ گھر والوں کا خیال یہ تھا کہ میں تھکن اتارنے کی غرض سے آرام کر رہا ہوں۔ مگر میری آنکھوں میں نیند کا شائبہ تک نہیں تھا۔ مجھے پہلے تو یہی سمجھ نہیں آرہی تھی کہ دادا جی کو یہ سب کچھ بتاؤں یا نہیں۔ پُرسکون جھیل میں پتھر پھینکنا کوئی معمولی بات تو نہیں ہے۔ پھر اچانک سہ پہر کے وقت مجھے خیال آیا، ممکن ہے دادا کے ذہن میں ابھی تک تشنہ سوال ہوں، میں کوئی ان کا جواب دے سکوں یا نہیں۔ یہ کوئی مضبوط دلیل نہیں ہے، تشنگی اگر ہوگی بھی تو وہ جھیل کی تہوں میں ہو گی۔ یہی سوچتے ہوئے اچانک مجھے امرت کور کی تشنگی یاد آگئی، وہ آج بھی نور محمد کی راہ تک رہی ہے۔ وہ آج بھی اس کے پیار میں سلگ رہی ہے۔ کیوں نا اس کا انتظار ختم کیا جائے؟ مگر یہ بھی کوئی اتنی مضبوط دلیل نہیں تھی۔ اس کا انتظار تو موت کے ساتھ ہی ختم ہو گا۔ کیا میں دا دا کو مجبور کر سکتا ہوں کہ وہ امرت کو رکو اپنا لے؟ نہیں میں ایسا نہیں کر سکتا، ہاں البتہ اس کی موت کو آسان ضرور کر سکتا ہوں، وہ جو معافی کی طلب گار تھی، میں اسے معافی دلا سکتا تھا۔ اس کے ذہن میں جو میرے دادا کے بارے میں تصور بن چکا تھا وہ اس سے نفرت کرتا ہے، میں اس نفرت کے احساس کو ختم کر سکتا تھا۔ دراصل میں ایسی کسی وجہ کی تلاش میں تھا، جس کی بنیاد پر میں دادا سے بات کر سکتا۔ ورنہ میں انہیں ماضی میں جھانکنے کی اذیت نہیں دینا چاہتا تھا۔ چند دن اسی کشمکش میں گزر گئے۔ مجھے کوئی ایسی وجہ نہ ملی اور پھر آخر ایک دن مجھے وہ وجہ مل گئی۔
اس رات میں نے سب گھر والوں کے ساتھ ڈنر کیا اور خوب باتیں کرتا رہا۔ پاپا کا خیال تھا کہ میں نے بہت آرا م کر لیا۔ اب مجھے ان کے ساتھ کام میں ہاتھ بٹانا چاہئے۔ میں نے بھی ان سے وعدہ کر لیا کہ ایک دو دن میں آفس آنے لگوں گا۔ ماما تو مجھے ابھی ایک ماہ مزید آرام کے لیے دینا چاہتی تھی۔ میں خوشگوار طبیعت کے ساتھ اپنے کمرے میں جا کر بیڈ پر نیم دراز ہو گیا۔ یہی وہ وقت تھا، جب دادا جی نماز پڑھنے چلے جاتے اور میں اپنے لیپ ٹاپ پر زویا کے ساتھ آن لائن ہو جاتا۔ وہ مجھے اس دن کی تازہ ترین صورتِ حال سے آگاہ کرتی کہ ہم دونوں کے معاملے میں بات کہاں تک پہنچی ہے۔ پھر ہم خوب تبصرہ کرتے۔ اس دن میں آن لائن ہوا تو جہاں زویا آن لائن تھی، وہاں بھان سنگھ کے ساتھ پریت کور بھی آن لائن تھے۔ ان کے ساتھ کچھ دیر حال احوال ہوا پھر بھان سنگھ نے مجھے ایک تصویر بھیج دی۔ میں نے وہ تصویر کھولی تو چونک گیا۔ وہ اسی مقام کی تصویر تھی جہاں میں نے نمازِ جنازہ پڑھی تھی۔ اب اس جگہ کا منظر تبدیل ہو چکا تھا۔ گندم کی فصل صاف تھی اور اس کھیت کے اردگرد چھوٹی چھوٹی چار دیواری تھی۔ اس کے اندر جگہ بالکل صاف تھی جیسے کسی گھرکا کچا صحن لیپ پوت کر بنایا ہوا ہو۔ اس کے ساتھ ہی بھان سنگھ نے ایک دوسری تصویر بھیج دی۔ وہ چار دیواری کے باہر کی تصویر تھی۔ چھوٹا سا گیٹ لکڑی کا بنا ہوا تھا۔ اس پر سیاہ پینٹ کیا گیا تھا سفید رنگ میں گورو مکھی زبان میں کچھ لکھا ہوا تھا۔ میں نے بھان سے اس کا ترجمہ پوچھا تو اس نے بتایا۔ ”اس گاؤں کے مظلوم بے گناہ مسلمان، شہید پاکستان“ اس تصویر نے میرے دل پر اتنا اثر کیا کہ میرے آنسو نکل پڑے۔ میں کافی دیر تک کوئی بات نہیں کر سکا۔ سبھی کی طرف سے سوالیہ نشان تھے میرے میسنجر پر۔ میں نے زویا سے مصروف ہو جانے کا بہانہ کر کے معذرت کی اور پوری توجہ سے بھان سنگھ کے ساتھ بات کرنے لگا۔
”یہ سب کیسے ہوا؟“
”دادی نے اس دن اس زمین کے مالک کو بلوایا اور اس سے کھیت کی قیمت پوچھی۔ وہ قیمت لینے پر نہیں مانا ایک جٹ کے لیے زمین بیچنا سب سے بری بات ہے۔اس نے زمین کے عوض زمین دینے کا وعدہ کر لیا، وہ بھی ایک کھیت کے بدلے میں تین کھیت لینے پر راضی ہوا“۔
”وہ کیوں؟“ میں نے پوچھا۔
”اس لیے کہ وہ کھیت گاؤں کے ساتھ لگتا ہے۔ اس کے عوض اس کو تین کھیت جو دینے ہیں وہ گاؤں سے بہت دور ہیں۔ اس کے ساتھ شرط یہ کہ اس کی زمین کے ساتھ لگتے ہوئے کھیت ہوں“۔
”تو پھر معاملہ کیسے طے ہوا؟“
”اس کی زمین کے ساتھ سریندرپال سنگھ کی زمین لگتی تھی۔ اس لیے زیادہ مسئلہ نہیں ہوا۔ انہوں نے فوراً امرت کور سے کہا اور اگلے ہی دن کچہری جا کر اس ایک کھیت کے بدلے میں اسی کی پسند کے تین کھیت دے دیئے۔ میں ان کے ساتھ کچہری گیا تھا۔ پٹواری کو بھی ساتھ ہی لے گئے تھے۔ اگلے دن میں نے اس کی چار دیواری شروع کر وا دی۔ کھیت کی فصل کٹوا کر اس پر صفائی کی پھر پوریے کھیت کو لیپ پوت دیا۔ اس دوران چاردیواری بھی مکمل ہو گئی۔ تین دن لگے سارے اس کام میں او ر یہ تین دن دادی اور امرت کور وہیں میرے ساتھ رہیں“۔
”واہ….! دادی بے چاری تو تھک جاتی ہوگی“۔
”ہاں…. مگر وہ کام ہونے تک وہیںکرسی پر بیٹھی رہتی۔ ہاں البتہ امرت کور سارا دن امزدورں کے لیے کھانے پینے کے بندوبست میں رہتی۔ ان تین دنوں میں مزدورں نے عیاشی کی ہے“۔
”اور گیٹ پر یہ کس نے لکھوایا؟“
”میں نے اور پریت کور نے …. خیال پریت کور کا تھا۔“
”اچھا، دونوں گھروں کے لوگوں نے کوئی سوال نہیں کیا کہ یہ سب کیوں؟“
”کیا، اور اس وجہ سے ساری رام کہانی دونوں گھروں کو معلوم ہو گئی،انہیں یہ بھی معلوم ہو گیا ہے کہ تم یہاں کیوں آئے ۔ تم کون ہو اور تم اچانک واپس کیوں چلے گئے“۔
”چلو، جیسے رب کی مرضی، پر تیرا بہت شکریہ یار“۔
”اس میں شکریے والی کیا بات ہے، یہ تو ہم پر قرض تھا، جو ہم نے دیر سے ادا کیا۔ تم سناؤ، تم نے اپنے ٹورکے بارے میں دادا جی کو بتایا“۔
”نہیں یار ، ہمت نہیں پڑ رہی، لیکن آج ضروربات کروں گا“۔
”چلو، تمہارے ٹور کا یہ فائدہ تو ہوا کہ جہاں اتنا بڑا کام ہوا، وہاں تمہیں زویا کی طرف سے بھی خوشخبری مل گئی۔رب کرے تم لوگوں کی جلدی شادی ہو جائے۔ تب میں بھی پاکستان آؤں“۔
”تو کوشش کر اور آجا، تم تو آسکتے ہو، سکھ یاتری بن کر“۔
”اچھا یار، کچھ کرتا ہوں، ویسے بیساکھی بھی نزدیک ہے۔ ممکن ہے ہم آجائیں“۔
”بس آہی جاؤ۔ بنا لو پروگرام۔ میں تجھے اپنے خاندان سے ملواؤ“۔
”میں کرتا ہوں بات سب سے اور سناؤ“۔
بات کرنے کے دوران یہ جب ”اور سناؤ“ والی بات آتی ہے تومزید بات کرنے کے لیے کوئی موضوع نہیں ہے۔ اب اگر بات مزید جاری رکھنا ہے توں یونہی گپ شپ ہو گی، کام کی بات نہیں ہو گی۔ مجھے چونکہ دادا اسے بات کو نابھی اس سے جلدی جلدی بھان اور پریت کے ساتھ اپنی گفتگو سمیٹی اور پھر لیپ ٹاپ بند کر دیا۔
میں جس وقت دادا جی کے کمرے میں گیا۔ وہ بیڈ پر آلتی پالتی مارے ، ہاتھ میں تسبیح پکڑے، کوئی وظیفہ پڑھ رہے تھے۔ میں خاموشی سے ان کے پاس جا کر بیٹھ گیا اور اپنا لیپ ٹاپ بیڈ پر رکھ دیا۔ کچھ دیر بعد ملازمہ دو کپ چائے لا کر بیڈ پر رکھ گئی۔ اتنے میں انہوں نے اپنا وظیفہ ختم کر لیا۔ تسبیح سمیٹتے ہوئے مسکرائے اور کہا۔
”باپ نے آج کام پر جانے کا کہہ دیا ہے تو تجھے دادا کا کمرہ دکھائی دے گیا۔ چل بتا ، کیا سفارش کرنی ہے۔ تیرے باپ سے“۔
”دادا جی، ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ کام تو مرد کی شان ہوتی ہے۔ وہ تو میں نے کرنا ہی کرنا ہے۔ آج تو آپ سے ڈھیر ساری باتیں کرنے آیا ہوں۔ آپ چائے پئیں“۔ میں نے اپنا پیالہ اٹھاتے ہوئے انہیں اشارے سے کہا۔
”نہیں، میں نے نہیں پینی چائے، پھر رات نیند نہیں آتی“۔
”میری باتیں سن کر آپ سوئیں گے بھی نہیں، یہ لیں“۔ میں دوسرا پیالہ اٹھایا اور ان کی طرف بڑھا دیا۔ وہ پکڑتے ہوئے پُرتجسس انداز میں بولے۔
”اوئے سیدھی بات کراوئے….بات کیا ہے؟“
میں چند لمحے خاموش رہا، پھر بولا۔
”میں آپ کا گاؤں جھتوال دیکھ کر آیا ہوں“۔ میں نے کہا تو وہ اس قدر چونکے کہ چائے چھلک پڑی۔ بہت مشکل سے ہاتھ جلتا ہوا بچا۔ انہوں نے پیالہ پھر ٹرے میں رکھ دیا اور غور سے میری طرف دیکھتے ہوئے بولے۔
”اوئے تُو سچ کہہ رہا ہے؟“
”جی دادا جی…. میں آپ سے جھوٹ کیوں بولوں گا…. اور میں…. امرت کور سے بھی ملا ہوں“۔ میں نے کہا تو پھٹی پھٹی آنکھوں سے میری طرف دیکھنے لگ گئے کتنی ہی دیر تک وہ ساکت و صامت یوں ایک ٹک میری طرف دیکھتے رہے جیسے انہیں اپنا ہوش بھی نہ رہا ہو۔ تقریباً چار سے پانچ منٹ ان کی یہی حالت رہی۔ پھر اپنے آپ میں آتے ہوئے بولے۔
”وہ زندہ ہے ابھی؟“
”وہ نہ صرف زندہ ہے، بلکہ آج بھی آپ کا انتظار کر رہی ہے“۔ میں نے کہا تو ان کی آنکھوں میں یک بارگی شعلے نکلنے لگے۔ پھر بڑبڑاتے ہوئے بولے۔
”کاش میں اسے اپنے ہاتھوں مار سکتا….“
”دادا جی….! میں پہلے نہیں جانتا تھا کہ آپ کا ماضی کرب ناک ہے۔ مجھے اندازہ بھی نہیں تھا، لیکن جب سے میں جھتوال سے ہو کر آیا ہوں مجھے پورا احساس ہو گیا ہے۔ آپ کے ماضی کا ایک ایک لمحہ میں نے اپنے دل پر محسوس کیا ہے، لیکن میں آپ سے ایک درخواست ضرور کروں گا…. امرت کور نے اب جو ایک کام کیا ہے، اس کے عوض آپ اسے معاف کر دیں….“
”کیا کام کیا ہے اس نے …. اور تُو وہاں چلا کیسے گیا“۔
”اب آپ نے دو سوال مجھ سے کر دیئے، بتائیں پہلے کس کا جواب دوں۔ سوچ لیں، مگر یہ پہلے چائے ختم کریں“۔
میں نے دوبارہ پیالہ اٹھا کر انہیں دے دیا۔ وہ خاموش رہے اور چائے پیتے رہے۔ ان کی طرف سے جواب نہ پا کر میں نے اپنا لیپ ٹاپ کھول لیا۔ سیل فون سے بنائیں بے شمار تصویریں میں اس میں محفوظ کر چکا تھا۔ میں اچک کر دادا کے پہلو میں جا بیٹھا۔ ان کے ساتھ لپٹ کر میں نے تصویر دکھانا شروع کر دیں۔ جھتوال میں داخل ہونے سے لے کر واہگہ آجانے تک کی پوری روداد میں نے انہیں سنانا شروع کر دی۔ ساتھ میں انہیں تصویریں دکھاتا گیا۔ میں جب روداد ختم کر چکا تھا تو دادا کی طرف دیکھا۔ ان کی داڑھی آنسوؤں سے بھیگ چکی تھی۔
”تُو دو چار دن وہاں اور رہ لیتا۔ کم از کم اس کھیت کو خرید کر….“
”وہی تو…. وہی تو کام کیا ہے امرت کور اور پرونت کورنے …. یہ دیکھیں“۔ میں نے بھان سنگھ کی بھیجی ہوئیں تصویریں ان کے سامنے کر دیں۔ اس نے وہاں کام کرتے مزدوروں، امرت کور کی خدمت اور پرونت کے وہاں بیٹھنے کی تصویریں بھی بھیج دیں تھیں۔
”یہ تُو نے بہت اچھا کام کیا کہ ان کی نمازِ جنازہ پڑھ لی، میں بد نصیب تو ایسا بھی نہیں کر سکتا تھا، بہر حال پریت کور کو میری طرف سے بہت سارا پیار کہہ دینا۔ اس نے جو پھاٹک پر تحریر لکھوائی، وہ مجھے اچھی لگی“۔
”آپ گور مکھی پڑھ لیتے ہیں کیا؟“ میں نے یہ سوال یونہی کیا تھا ان کا دھیان بٹانے کے لیے۔
”ہاں، میں پانچ جماعتیں پڑھا ہوں۔ یہ امرت اور پرونت مجھ سے تین جماعتیں پیچھے تھیں اور بہت سارے لوگ تھے۔ تم مجھے بتاتے نا تو میں تجھے وہاں کے بارے میں اور بہت کچھ بتاتا“۔
”ایسی کون سی بات ہے ہم دونوں وہاں چلے جائیں گے۔ بلکہ وہ ہمیں بھان اور پریت کی شادی پر بلائیں گے“۔ میں نے اپنے اصل مقصد کی بنیاد رکھتے ہوئے کہا۔
”ہاں….! اگر انہوں نے بلایا تو ضرور جائیں گے“۔ انہوں نے خواب آگیں انداز میں کھوئے ہوئے انداز میں کہا۔
”اچھا دادا….! امرت کور اپنی جوانی میں تو قیامت ہو گی نا….“ میں نے مسکراتے ہوئے کہا تو وہ گہری سنجیدگی سے بولے۔
”ہاں ، وہ قیامت ہی تھی۔ مگر میں اس کا پاگل پن سمجھ ہی نہ سکا۔ اگر وہ رگھبیر سنگھ کو قتل نہ کرتی تو میں اسے کچھ اور ہی سمجھتا رہتا۔ مگر وہ وقت ایسا تھا بلال، ایک حسرت تھی کہ اگر میں اپنے گھر والوں کے ساتھ ہوتا تو شاید انہیں بچا لیتا“۔ وہ پھر ماضی میں کھو گئے تھے۔
”مگر قدرت کو آپ کی زندگی عزیز تھی، آپ فقط آپ ہی اس گاؤں کے مسلمانوں میں سے بچ گئے۔ آپ اس راز کو سمجھیں۔ قدرت کے کھیل تو نیارے ہوتے ہیں نا“۔ میں نے انہیں ماضی سے واپس لانے کی ایک کوشش کی۔
”ہاں، میں نے اس پر بہت سوچا، مگر یہ سمجھ میں آنے والی باتیں نہیں ہیں“۔ انہوں نے سر ہلاتے ہوئے کہا۔
”اچھا دادا، چھوڑیں ماضی کی باتیں، وہ جو ہونا تھا سو ہو گیا۔ میں آپ سے ….“ میں نے کہنا چاہا تو انہوں نے ٹوکتے ہوئے کہا۔
”نہیں پتر….! میں اکیلا فرد اگر اپنے ماضی کو بھول جاتا ہوں تو ممکن ہے اتنا نقصان نہ ہو، لیکن اگر بحیثیت قوم اپنے ماضی کو بھول گئے تو بہت بڑا نقصان ہو جائے گا۔ یاد رکھو، پاکستان ایک نظریاتی مملکت ہے، مگر بدقسمتی سے یہ قائداعظم کے کھوٹے سکوں کے قبضے میں آگیا ہے۔ آزادی کی جو اصل روح تھی، ان لوگوں نے اس کو مسخ کر کے رکھ دیا ہے۔ آزادی سے قبل جویونینسٹ پارٹی کا یا کانگرنس سے تعلق رکھنے والا مسلمان، آزادی کے بعد مسلم لیگ میں آجائے تو کیا وہ پرلے درجے کی منافقت نہیں ہے۔وہ فتویٰ فروش مولوی جو پاکستان مخالف تھے۔ آج اگر پاکستان کے دعویدار بنیں تو وہ بھی انتہائی منافق ہیں۔ غور کرو، اگر پاکستان کو در پیش مسائل میں سے کسی ایک مسئلے کو بھی اٹھا کر دیکھ لو، اس میں وہی لوگ سامنے آئیں گے جو کل پاکستان مخالف تھے۔ اگر ہم اپنے ماضی کو یاد نہیں رکھیں گے تو ان منافقوں کو کیسے پہچان پائیں گے۔ آگ اور خون کا دریا کن لوگوں نے پار کیا؟ یہ سروے اور تحقیق کرنے کی کسی کو توفیق نہیں ہوئی کہ وہ کون سے مہاجرین تھے جو لٹ پٹ کر آئے اور انہیں یہاں آ کر ذلیل ہونا پڑا اور وہ کون بے غیرت ہیں جنہوں نے جعلی کلیموں پر زمینیں اور جائیدادیں بنالیں۔ وہ کون سے بے ضمیر تھے جنہوں مہاجرین کو دبا کر رکھا اور ان کا حق ان تک نہیں پہنچنے دیا۔ جب تک ہم اپنے ماضی کو یاد نہیں رکھیں گے تو اپنی آئندہ نسل کو کیا بتائیں گے کہ دنیا کی سب سے بڑی ہجرت اس خطے میں ہوئی اور اس پیمانے پر قتل عام ہوا۔ اس طرح تو ہمارا نظریہ ہی ختم ہو جائے گا“۔ انہوں نے پورے جوش و جذبے سے کہا کہ ان کا چہرہ سرخ ہو گیا۔
”دادا جی…. آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں“۔ میں انہیں کول ڈاؤن کرنے کے لیے کہا۔
”کاش….! کوئی ایسا مجاہد پیدا ہو جو قائداعظم کا حقیقی سپاہی ہو۔ وہ ایسی تحقیق کروائے۔ تم نے اکیاون برس بعد اپنے اجداد کی قبروں کو نشان دے دیا، کاش کوئی قائداعظم کے نظریات پر سے مٹی جھاڑ کر اس ملک پر لاگو کر دے۔ مہاجرین کی نشاندہی کر کے انہیں ان کا حق دلا دے۔ ورنہ تاریخ ہمیں کبھی معاف نہیں کرے گی کہ ہم وہ قوم ہیں جو اپنی قربانیاں بھی خود ہی ضائع کر دیتے ہیں“۔
”دادا جی آپ جذباتی ہو گئے اور میں اس جذباتی پن سے آپ کو بچا رہا تھا“۔ میں نے آہستگی سے کہا۔
”دکھ ہوتا ہے نا بیٹا جب قربانیاں ضائع جاتے ہوئے دیکھتا ہوں۔ خیر، تم بتاؤ، کیا کہنا چاہ رہے ہو؟“ انہوں نے خود پر قابو پاتے ہوئے کہا۔
”میں یہ کہہ رہا تھا دادا جی کہ اگر امرت کور یہاں آجاتی ہیں اور آپ سے معافی مانگ لیتی ہیں تو کیا آپ اسے معاف کر دیں گے؟“
”اس تصویر کے دکھانے سے پہلے میں اسے کبھی معاف نہ کرتا، لیکن یہ جو اس نے کام کیا ہے، میں نے اس تصویر کو دیکھتے ہی اسے معاف کر دیا تھا۔ اﷲ اس کے حال پر رحم کرے“۔ انہوں نے ایک سرد آہ بھرتے ہوئے کہا اور پھر کافی دیر تک خاموش رہے۔ تب میں نے پوچھا۔
”آپ کا دل کرتا ہے کہ آپ ایک بار جھتوال جائیں!“
”پتر…. کس کا جی نہیں کرتا کہ اپنی جنم بھومی دیکھے۔ میں نے تو زندگی کا ایک بڑا حصہ وہاں گزارا ہے اور پھر سب سے بڑی بات، میں حاجراں کی، اپنے والدین کی قبروں پر ایک بار فاتحہ پڑھنے کا ضرور خواہش مند ہوں“۔ انہوں نے حسرت سے کہا تو میں نے دادا کے ہاتھ پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔
”میں بناتا ہوں ایسا کوئی معاملہ…. چلتے ہیں وہاں….“
”ٹھیک ہے بیٹا، جیسے تیر ی مرضی….“ انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا۔ پھر کلاک کی طرف دیکھ کر بولے۔ ”اوئے پتہ ہی نہیں چلا فجر کا وقت ہونے والا ہے۔ ابھی اذانیں ہو جائیں گی۔ چل اٹھ جا، ایک بار مزید چائے بنا کر لا“۔
میں مسکراتے ہوئے اٹھ گیا۔ میں نے سوچا اب جھتوال سے لائے تحائف کھولنے کا وقت ہے۔
دوسرے دن میری اور بھان سنگھ کی کمپیوٹر کے ذریعے گفتگو ہو گئی۔ اپنے کمپیوٹر پر پریت کور بھی آن لائن تھی۔ حال احوال پوچھنے کے دوران مجھے معلوم ہوا کہ وہ اپنے اپنے کمروں میں ہیں۔ اس وقت میرا دل چاہا کہ زویا بھی آن لائن ہوتی تو بہت اچھا ہوتا۔ یونہی باتوں کے دوران میں نے دادا نور محمد سے بات ہو جانے کے بارے میں بتایا۔
”کیا رویہ تھا ان کا ؟“ بھان سنگھ نے پوچھا۔
”بہت جذباتی ہو گئے تھے اور اپنے گاؤں کو بہت یاد کر رہے تھے۔ انہوں نے بہت سے ایسے لوگوں کے بارے میں پوچھا، جن کے بارے میں شاید تُو بھی نہیں جانتا ہوگا۔ میں تو خیر گنتی کے ایک دو بندوں سے ملا تھا“۔ میں نے اسے جواب دیا۔ تبھی پریت کور نے پوچھا۔
”کیاوہ جھتوال آنا نہیں چاہتے؟ یا پھر یہاں آنے کی خواہش کی؟“
”ہاں….! بتایا نا وہ بہت جذباتی ہو گئے تھے۔ خاص طور پر تمہارا وہ گیٹ پر لکھنے والا خیال انہوں نے بہت پسند کیا ہے۔ وہ بھی وہاں نمازِ جنازہ پڑھنا چاہتے ہیں“۔
”کیا امرت کور سے نہیں ملنا چاہتے؟“ بھان سنگھ نے پوچھا۔
”میں نے ذکر تو کیا مگر ان کے تا ثرات کے بارے میں نہیں جا ن سکا“۔ میں نے جان بوجھ کر جھوٹ بول دیا۔
”ہو سکتا ہے وہ عمر کے تقاضے کی وجہ سے اپنی خواہش کا اظہار نہ کر پائے ہوں؟“ پریت کور نے پوچھا تو میں نے جواباً کہا۔
”ممکن ہے۔ مگر میں کوئی بات یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ امرت کور کے بارے میں اب ان کے دل میں کیا ہے۔ کچھ کہا ہوتا تو شاید میں اندازہ لگا لیتا“۔
”تو پھر کب آرہے ہو جھتوال؟“ بھان سنگھ نے پوچھا تو میں نے جواب دیا۔
”یار یہ تو طے شدہ بات ہے ناکہ جب تمہاری شادی ہو گی، میں ضرور آؤں گا۔ ویزے وغیرہ میں بھی آسانی ہو گی“۔
”تمہارا برٹش پاسپورٹ کب کام آئے گا۔ تمہارے باپو نے کچھ اور اچھا کیا ہو یا نہ کیا ہو تمہارے بارے میں، یہ کام بہر حال بہت اچھا کیا ہے“۔ پریت کور نے مزاح کے طور پر کیا۔
”خیر….! میں تو تبھی آؤں گا۔ جب تم دونوں کی شادی ہو گی اور اس وقت پوری کوشش کروں گا کہ دادا جی کو بھی لے کر تمہارے ہاں آجاؤں۔ یہ میری بھی زبردست خواہش ہے اور امرت کور سے وعدہ بھی ہے“۔
”چلو، میں کوشش کروں گا کہ میری شادی جلدی ہو جائے“۔ بھان سنگھ نے کہا تو میں نے وہی لفظ پریت کور کو بھجوا دیئے۔ یہ ذراسی شرارت تھی، پھر کافی دیر تک یونہی باتوں کا سلسلہ چلتا رہا۔
میری اور بھان سنگھ کی اکثر گفتگو رہتی۔ کبھی کمپیوٹر کے ذریعے اور کبھی فون سے۔ پھر چند دنوں کے بعد یہ بھی کم ہوتا چلا گیا۔ میں پاپا کے ساتھ بزنس میں آگیا تو معروفیت کا ایک طوفان امنڈ آیا۔ ایسے ہی کسی وقت بھان سنگھ، زویا، پھر پریت کور سے گفتگو ہو جاتی۔ جب میں آفس میں ہوتا یا پھر اس دوران ان میں سے کوئی آن لائن ہوتا ۔ پاپا نے بزنس کو ازسر نو دیکھنا شروع کر دیا تھا۔ ایک تو انہیں اپ ٹوڈیٹ معلومات مل جاتیں دوسرا مجھے ہر شے کے بارے میں اچھی طرح معلوم ہو جاتا۔ میں نے بھی چاہا تھا کہ دیکھوں اس وقت بزنس کی صورتِ حال کیا ہے۔ دن رات اس طرح گزرتے چلے گئے۔ میں بہت ہی مصروف ہو گیا۔
زویا کا معاملہ بھی مجھے کچھ سرے چڑھتا ہوا دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ اس نے کافی حد تک اپنی والدہ کو منا لیا تھا، لیکن ابھی تک اسے اپنے باپ کے بارے میں کچھ بھی یقین نہیں تھا کہ وہ کیا چاہتا ہے۔ مگر میں کسی طرح بھی مایوس نہیں تھا۔ میں نے دادا جی کو تمام صورتِ حال سے آگاہ کر دیا تھا۔ انہوں نے مجھے فکر نہ کرنے کے لیے کہا، لیکن اطمینان نہیں تھا۔ مجھے دادا جی کے بارے میں معلوم نہیں تھا کہ انہوں نے کس بنیاد پر مجھے مطمئن ہو جانے کے لیے کہا تھا۔ زویا سے بہر حال میرا رابطہ رہتا۔ وہ ایک اچھی دوست تو تھی۔ وہ بھی گو مگو کی کیفیت میں تھی۔ میں نے اور اس نے خود کو حالات پر چھوڑ دیا۔ ہم انتظار کرنے لگے کہ وقت ہمارے لیے اپنے دامن میں کیا لے کر آتا ہے۔
اس دن میں آفس میں مصروف تھا۔ اسی دن پاپا سے یہ ڈسکس ہوا تھا کہ نہ صرف بزنس کو مزید پھیلا جائے بلکہ اس پر بھی بات ہوئی کہ کس پہلو پر زیادہ توجہ دی جائے اس وقت میں سینئر لوگوں سے میٹنگ میں تھا کہ بھان سنگھ کا فون آگیا، اس نے ہیلو کی بجائے سیدھے پوچھا۔
”اوئے کہاں ہے تُو؟“
”میں آفس میں، خیر تو ہے نا، یوں کیسے پوچھ رہا ہے؟“ میں نے اس کے لہجے پر دھیان دیتے ہوئے حیرت سے پوچھا۔
”ہم اس وقت اٹاری پر ہیں۔ ہمارا امیگریشن ہو گیا ہے، اب دیکھو، لاہور کس وقت پہنچتے ہیں“۔ اس نے بڑے جوش سے کہا تو میں نے خوشگوار حیرت سے پوچھا۔
”مجھے پہلے نہیں بتایا“۔
”اب بھی تو لاہور آنے سے پہلے بتا رہا ہوں۔ بہر حال باقی باتیں وہیں ہوں گی، آجانا اسٹیشن پر“۔ اس نے تیز تیز انداز میں کہا اور فون بند کر دیا۔ مجھے اس پر شدید غصہ آیا۔ ظاہر ہے وہ اکیلا نہیں تھا، اس کے ساتھ مزید لوگ بھی ہوں گے، آیا اس کے گھر والے ہیں یا کوئی دوسرے ہیں۔ اب اس مناسبت سے میں نے بندوبست کرنا تھا۔ پھر نہ جانے کیوں ایک سوچ یہ بھی ابھری کہ ممکن ہے اس کے ساتھ امرت کور ہو؟ میرا دل نہیں مان رہا تھا۔ اگر وہ ہوتی تو ضرور مجھے بتاتا۔ ظاہر ہے مجھے دادا جی کو اس کے آنے کے بارے میں ذہنی طور پر تیار کرنا تھا۔ میں واپس اسے فون نہیں کر سکتا تھا۔ نمبروں سے دیکھ کر میں نے اندازہ لگایا تھا کہ وہ کوئی پی سی او وغیرہ ہی سے کال تھی۔
”بلال صاحب….! خیریت ہے آپ بڑی گہری سوچ میں ڈوب گئے ہیں“۔ ایک سینئر اہلکار نے پوچھا تو میں چونک گیا پھر موجودہ صورتِ حال کے بارے میں جلدی جلدی میٹنگ نمٹائی۔ میرا اندازہ یہی تھا، اب کم از کم ایک ہفتہ مجھے آفس سے دور رہنا ہو گا۔ میں نے چند لمحے سوچا اورپاپا کو اس بارے بتایا۔ انہوں نے مجھے ایک ہفتے کی ”چھٹی“ دے دی۔
اس وقت شام کے سائے پھیل رہے تھے جب میں اور دادا جی نور محمد لاہور اسٹیشن کے ایک بینچ پر بیٹھے ہوئے تھے۔ میں نے آفس ہی سے فون کر کے دادا جی کو بھان سنگھ کے آنے کے بارے میں بتایا۔ کچھ دیر بعد انہوں نے مجھے آفس ہی میں رکنے کو کہا اور تھوڑی دیر بعد خود آگئے میں ان کی جذباتی کیفیت کو بہت حد تک سمجھ سکتا تھا۔ اس لیے کسی قسم کا بھی کوئی سوال نہیں کیا۔ گھر کا ڈرائیور انہیں لے کر آیا تھا۔ مگر وہ میرے ساتھ بیٹھ کر اسٹیشن چلے آئے تھے۔ ڈرائیور کو بھی کار ساتھ میں لے آنے کے لیے کہا۔ انہوں نے دلیل دیتے ہوئے کہا۔
”اب پتہ نہیں کتنے لوگ ہوں گے، ایک گاڑی میں آبھی سکیں گے یا نہیں“۔
اس پر میں خاموش رہا تھا۔ پھر بہت سارے سوال ذہن میں آنے کے باوجود میںنے ان سے کچھ نہیں پوچھا۔ وہ چپ چاپ آنے والی گاڑیوں کو تکتے رہے۔ یہاں تک کہ اچانک وہ بول پڑے۔
”بلال….! ذرا تصور کر، جس طرح یہ گاڑی یہاں آ کر رکی ہے، اسی طرح ہجرت کے دنوں میں گاڑی آ کر رکی تھی اور اس میں سے انسانی کٹی پھٹی لاشیں، کسی کا سر نہیں، کس کا دھڑ نہیں، چھوٹے چھوٹے معصوم بچے…. لہو میں لت پت….مرے ہوئے کھلی آنکھوں سے اس جہاں کو تکتے ہوئے۔ ”یہ کہتے ہوئے وہ اچانک ہچکی لے کر رو دیئے۔ میں نے انہیں ذرا بھی ڈھارس نہیں دی، میں نے انہیں رونے دیا۔ ان کے موٹے موٹے آنسو ان کی سفید ریش میں جذب ہونے لگے۔ چند لمحوں بعد وہ سنبھلے اور پھر بولے….”میں نے خود اپنی آنکھوں سے ریل کی پٹری کے درمیان ایک عورت کی لاش دیکھی تھی، جسے کتے بھنبھوڑ رہے تھے …. یار قیامت اور کیسی ہوتی ہے“۔
”دادا جی خود کو سنبھا لیں….“ میں نے آہستگی سے کہا۔
”اس کے سوا چارہ بھی کوئی نہیں ہے، ہمیں ہی خود کو سنبھالنا پڑے گا“۔ یہ کہہ کر انہوں نے حسرت بھرے لہجے میں کہا۔ ”مگر کہاں سنبھال پائے ہیں خود کو، شاید ہم سارے دکھ بھول جاتے اگر ہمیں وہ منزل مل جاتی جس کے لیے اتنی بڑی قربانی دی گئی تھی۔ کل تک جو کام متحدہ ہندوستان میں پنڈت کرتا تھا، وہی کام یہاں کا مولوی کرنے لگ گیا۔فرق کیا رہا۔ وہ بھاشن دیتا رہا اور یہاں بیان ہونے لگے، پاکستان اسلام کی تجربہ گاہ نہیں فرقہ ساز فیکٹری بن گئی۔ کیا کریں ہم“۔ آخری لفظ کہتے ہوئے ان کے لہجے میں بے بسی تھی۔
”داداجی….! آپ اتنے مایوس کیوں ہیں، وقت لگے گانا، دھیرے دھیرے سب ٹھیک ہو جائے گا“۔ میں نے ان کا دھیان بٹاتے ہوئے کہا۔ حالانکہ مجھے اپنا لہجہ میں کھوکھلا لگ رہا تھا۔
”یہی تو المیہ ہوا ہے ہمارے ساتھ، ہم نے اپنی آئندہ نسل کو بھی وہ ولولہ نہیں دیا، وہ تحریک نہیں دی جو پاکستان بناتے وقت ہمارے اندر تھی۔ میں اپنی الجھی ہوئی ڈپریشن زدہ نوجوان نسل کو الزام نہیں دیتا یہ نسل بے چاری بے قصور ہے۔ انہیں مقصد ہی نہیں دیا ، کوئی منزل ہی نہیںدی، وہ بے چارے کیا کریں۔ منزل کے بارے میں کیا بتانا، کوئی بتانے والاہی نہیں۔ خود رو پودا جس طرح چاہے بڑھ جائے۔ کسی کے ساتھ انصاف ہی نہیں، جو جتنا کرپٹ بندہ ہے وہ اتنی بڑی گاڑی میں عزت دار بن کر گھوم رہا ہے“۔ ان کے لیے میں غصہ در آیا تھا تو میں نے پھر سے ان کا دھیان دوسری طرف لگانے کی خاطر کہا۔
”دادا جی…. مجھے یہ بتائیں، مہمانوں کے بارے میں معلوم نہیں، ایک ہے یا زیادہ ، ان کے ٹھہرانے کا بندوابست ، ان کے لیے ….“
”اوئے….! جتنے بھی ہوں گے، میں سنبھال لوں گا۔ تُو فکر نہ کر، تُو انکوائری تک جا اور پتہ کر کے آ کر گاڑی واہگہ سے نکلی ہے یا نہیں؟“
”جی، میں ابھی پتہ کر کے آتا ہوں“۔ میں یہ کہہ کر اٹھنے ہی والا تھا کہ اسٹیشن پر ہلچل ہونے لگی۔
”میرا خیال ہے گاڑی آگئی ہے“۔ دادا جی نے بڑبڑانے والے انداز میں کہا اور اُدھر دیکھنے لگے جہاں سے سمجھوتہ ایکسپریس نے آنا تھا۔
گاڑی پلٹ فارم پر رک گئی تھی۔ اس کے ساتھ ہی مخصوص قسم کی آوازوں کا شور ہونے لگا تھا۔ سکھ یاتریوں میں کئی جذباقی قسم کے سکھ بھی تھے۔ عمومی طور پر عام سکھوں نے مختلف رنگوں کی شلوار قمیص یا دھوتی کرتہ پہنا ہوا تھا، ان کی مخصوص پگڑیاں تھیں۔ مگر وہ جذباتی سکھ نیلے رنگ کے لباس میں اور اسی رنگ کی پگڑی پہنے ہوئے تھے۔ وہ زور زور سے نعرے لگا رہے تھے۔ ”جو بولے سونہال…. ست سری اکال“۔ ان کے ساتھ وہ اپنی چھوٹی بڑی کرپانیں لہرا رہے تھے۔ ان کے اس انداز کو دیکھتے ہوئے ایک لمحے کے لیے میرے دل میں بھی آئی کہ یہ ایک طرح سے کمینہ پن ہے، یہ ایسا کسے دکھا رہے ہیں۔ پھر دوسرے ہی لمحے ان کی مذہبی کیفیت کا خیال دل میں آیا کہ ممکن ہے۔ یہ وہ خالصتانی سکھ ہوں جنہیں شاید ہندو ستان میں ایشیا کی سب سے بڑی جمہوریت میں ایسا کوئی نعرہ لگانے کی اجازت نہ ہو۔ ”واہگرو دا خالصہ…. واہگرو دی جے…. واہگرو دی فتح….“ وہ ایسا نہ کہہ پاتے ہوں اور اپنی یہ بھڑاس یہاں آ کر نکال رہے ہوں۔ اس لمحے میں نے سوچا، دادا جی کی کیفیت کیا ہو گی؟ ان کے سامنے تو وہ سارے منظر پھر آ گئے ہوں گے، وہ تاریک ترین رات بھی یاد آگئی ہو گی۔ جب رگھبیر سنگھ کو امرت کور نے مارا تھا۔ اپنے ہی گھر سے اٹھتے ہوئے شعلے دیکھے ہوں گے…. میں نے آہستگی سے دادا جی کا ہاتھ تھام لیا، جو اس وقت گردشِ لہو کے باعث گرم تھا۔ وہ ہولے ہولے لرز رہے تھے۔
میری نگاہیں ٹرین سے اترنے والے مسافروں پر تھیں۔ مگر بھان سنگھ ان میں دکھائی ہی نہیں دے رہا تھا۔ کافی رش تھا۔ اچانک میری نگاہ ایک بوگی پر پڑی جہاں وہ میری ہی تلاش نگاہ دوڑا رہا تھا۔ میں نے ایڑیاں اٹھاکر زور زور سے ہاتھ ہلا کر اسے متوجہ کرنے کی کوشش کی اور بے ساختہ زور سے پکارا بھی۔ وہ آوازکی سمت تلاش کرتے ہوئے اِدھر اُدھر دیکھنے لگا اور پھر اس نے مجھے دیکھ لیا۔ مطمئن انداز میں ہاتھ ہلا کر مجھے وہیں رکنے کا اشارہ کیا۔ رش کے باعث میں نے دادا جی کو وہیں کھڑے رہنے کا کہا۔ انہوں نے بھی بھان سنگھ کو دیکھ لیا تھا۔ میں نے جب اسے دوبارہ دیکھا تو وہ بوگی میں واپس جارہا تھا۔ کچھ دیر بعد رش کم ہونا شروع ہو گیا۔ تبھی بھان سنگھ کے ساتھ اس کے پریوار کے لوگ باہر آنا شروع ہو گئے۔ پردیپ سنگھ، پریت کور، چا چی جسیمت کور، اور آخر میں امرت کور کا چہرہ دکھائی دیا تو میرے منہ سے بے ساتہ نکل گیا۔
”امرت کور….“۔

جاری ہے
*********

Comments

- Advertisement -