قدیم حیدر آباد (دکن) کی رسومات جن میں شادی بیاہ کی رسومات اہم ہیں، اس موقع پر کئی روز قبل تیاریوں کا آغاز ہوا کرتا تھا، عروس کو ایک ہفتہ قبل ہی سے الگ تھلگ رکھا جاتا تھا۔
پیلا لباس اس کے لیے مخصوص ہوتا تھا بلکہ آج بھی ہے۔ وہ کام کاج سے دست بردار ہو جایا کرتی تھی۔ خاندان کی ایک سن رسیدہ خاتون اس کے ہمراہ ہوا کرتی تھی جو نئے ماحول کے لیے اسے ذہنی طور پر تیار کرتی تھی۔ ہر گھر میں صحن ہوتا تھا اور مکان وسیع اور کشادہ ہوا کرتے تھے جس میں بے حساب مہمان سما جاتے تھے۔
میدانوں میں شامیانے ڈالے جاتے اور خاندان کے بزرگ، نوجوان نسل سے کام لیا کرتے تھے۔
آج بزرگوں کی آواز صدا بہ صحرا بن گئی ہے اور فلیٹ کی زندگی نے جذبات اور احساسات کا خون کر دیا ہے۔
پولیس ایکشن کے دوران بعض اضلاع میں پولیس یا فوج کی زیادتیاں رہیں۔ خوف و ہراس کا ماحول تھا اور لوگ تیز رفتاری سے نقل مکانی کرنے پر مجبور تھے۔ ایسی کوئی شخصیت بھی نہیں تھی جو مسلمانوں کی صحیح راہ نمائی کرسکے۔
پرانے حیدر آباد (دکن) کو یاد کریں تو فضاؤں میں گھوڑوں کی ٹاپ ابھرتی ہے، اس زمانے کی سواریوں میں تانگے، بنڈیاں اور سائیکل رکشے ہی تھے۔ شکرام بھی ہوا کرتا تھا جس میں بیٹھنے کا انتظام فرشی ہوا کرتا تھا۔ اکثر طلبا شکرام ہی کے ذریعہ مدرسہ جایا کرتے تھے، کیوں کہ اس میں اپنے بستے رکھنے کی انھیں کافی سہولت حاصل ہوتی تھی۔
ہاتھ سے چلنے والے رکشے، پھر پیڈل والے رکشے بھی اہم سواریوں میں شامل تھے۔ گرد و غبار اور دھول سے پاک حیدر آباد من کو بہت بھاتا تھا۔
(’حیدر آباد جو کل تھا‘ کے موضوع پر پروفیسر یوسف سرمست کی تحریر سے خوشہ چینی)