پیر, نومبر 17, 2025
اشتہار

ابنِ خلدون: وہ دانشور جس نے تاریخ کی پورے طور پر تشریح کر دی

اشتہار

حیرت انگیز

اٹھارہویں بلکہ انیسویں صدی کے نصفِ آخر تک ابنِ خلدون کے علاوہ بہت کم ایسے مؤرخ گزرے ہیں جنہوں نے تاریخ کی توضیح کی طرف توجہ کی ہو۔ ابن خلدون پہلا شخص تھا جس نے چھ سو اٹھارہ سال پیشتر تاریخ کے موضوع، اس کے دائرہ عمل اور تاریخی ارتقاء کے قوانین پر سائنٹفک طور سے روشنی ڈالی۔ یہی وجہ ہے کہ آج تقریباً مشرقی علوم سے واقفیت رکھنے والے تمام مفکرین ابن خلدون کو فلسفۂ تاریخ اور اجتماعی علوم کا بانی سمجھتے ہیں۔

ابنِ خلدون سے پہلے اور اس کے بعد بھی ایک عرصہ تک مؤرخ اپنے مطالعے کو محض سیاسی تاریخ اور واقعات نگاری سے آگے نہیں بڑھاسکے تھے۔ اس زمانے کے مفکر یا تو سرے سے حرکت و تبدیلی کا انکار کرتے تھے یا تمام اجتماعی و معاشرتی تبدیلیوں کو رضائے الٰہی کا پابند تصور کرتے تھے وہ نہ تو اس بات کی ضرورت محسوس کرتے تھے کہ ان تبدیلیوں کے اسباب معلوم کریں اور نہ ہی یہ بتاتے تھے کہ رضائے الٰہی سے ان کا کیا مطلب ہے۔

ایسے مفکرین نے، جو مذہب کو انسانی ترقی کی اساس اور اس کی سب سے اہم قوت سمجھتے تھے تصور اور احساس کے ذریعے تاریخ کی تعبیر کی۔ یہ فلسفی اس اہم بات کو نظرانداز کر گئے کہ مذاہب اور تصورات انسانی ارتقاء کے محرک نہیں بلکہ خود اجتماعی زندگی کی پیداوار ہیں۔ ان فلسفیوں نے یہ بھی فراموش کردیا کہ ماحول اور کردار میں بنیادی تبدیلیوں کے بعد ایک ہی نظام فکر یا مذہب کا قائم رہنا کسی صورت میں ممکن نہیں۔

عینی نظریات کی ناکامی کے بعد مفکرین نے خارجی ماحول اور جغرافیائی قوتوں کی جانب توجہ کی۔ اس خیال کے مفکرین نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ تاریخ کوآگے بڑھانے والی قوتیں تصورات نہیں بلکہ جغرافیائی ماحول ہوتا ہے۔ یہ لوگ کہتے تھے کہ تصورات اور اندازِ فکر مخصوص جغرافیائی ماحول کی پیداوار ہوتے ہیں۔ تاریخ کے اس تصور کے ساتھ ٹامس بکل کا نام وابستہ ہے جو اس دبستانِ فکر کا سب سے بڑا نمائندہ خیال کیا جاتا ہے۔

بکل سے پیشتر اٹھارہویں صدی کے بہت سے مفکرین نے اس نظریہ کی ترجمانی کی ہے اور ان میں مونٹسکو اور وائیکو زیادہ مشہور ہیں۔ بعض مؤرخوں نے مونٹسکو کی کتاب Spirit of the Laws (روح قوانین) کو اٹھارہویں صدی کی سب سے اہم تصنیف قرار دیا ہے۔ ان مؤرخوں کی رائے کو آسانی سے نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ خود بکل نے لکھا ہے کہ مونٹسکو کو ان حقائق کاعلم تھا جن سے اس سے پہلے کے مؤرخ بالکل واقف نہیں تھے۔ وہ جانتا تھا کہ انسانی ارتقاء میں انفرادی شخصیتوں اور اس کی صلاحیتوں کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔

بکل نے ایک اور مقام پر لکھا ہے کہ مونٹسکو پہلا شخص تھا جس نے ایک ملک کی اجتماعی حالت اور اس کے قوانین (JURISPRUDENCE) کے تعلق کو معلوم کرنے کے لیے جو جغرافیائی ماحول کے علم کی مدد لی تاکہ ایک خاص تمدن پر اس کے خارجی ماحول کے اثرات کو پورے طور پر اجاگر کرسکے۔

فلسفۂ تاریخ اور اجتماعی علوم میں جو تازہ ترین تحقیقات کئی گئی ہیں ان سے بکل کے خیالات کی تردید ہوتی ہے۔ اب یہ پورے طور پر تسلیم کرلیا گیا ہے کہ مونٹسکو وائیکو اور اگسٹ کومٹے سے بہت پہلے ابن خلدون نے اجتماعی مسائل کا مطالعہ کیا اور نہایت واضح طور پر ان نظریات کا اظہار کیا۔ مشرقی علوم سے واقفیت رکھنے والے تمام ایسے مفکرین جنہیں ابنِ خلدون کی تصنیفات کا مطالعہ کرنے کا موقع ملا ہے، اس خیال کی تصدیق کرتے ہیں۔

انیسویں صدی کے اوائل میں مشرقی علوم کے ایک آسٹروی ماہر قان ہمیرپرگسٹال نے ابنِ خلدون کو ’’عربوں کا مونٹسکو‘‘ قرار دیا۔ ہالینڈ کے ذان کریمر کا قول ہے کہ وہ (ابن خلدون) تاریخ تمدن کا بانی ہے۔

ایک جرمن نقاد فان ویسندینگ نے ابن خلدون کو انتہائی منفرد مفکر اور میکاولی اور وائیکو کے مدرسہ فکر کا استاد بتایا ہے۔ اطالوی پروفیسر اسٹیفینوکوریو نے لکھا ہے کہ ’’ابن خلدون ان عظیم شخصیتوں میں سے ہے جنہوں نے تاریخ میں بہت بلندترین مقام حاصل کیے ہیں کیونکہ اس نے میکاولی، وائیکو اور مونٹسکو سے پیشتر ایک نئی سائینس کی طرح ڈالی، تاریخ کی سائنس اور تاریخ کے مطالعے کے تنقیدی اصول اور تاریخی ارتقاء کے قوانین مرتب کیے۔‘‘

یہی پروفیسر آگے چل کر لکھتاہے کہ ’’اس عظیم بربری مؤرخ نے کارل مارکس باکونن اور کونسدرانت سے بہت پیشتر معاشرتی انصاف اور معاشیات کے بہت سے اصول معلوم کر لیے تھے۔‘‘ وہ کہتا ہے کہ ’’اگر ایک طرف معاشرے کی پیچیدہ زندگی کے متعلق نظریات اسے فلسفہ تاریخ میں ایک بلند مقام بخشتے ہیں تو دوسری طرف محنت، ملکیت اور اجرت کی اثر آفرینی کے بارے میں اس کے نظریے اسے ماہرین معاشیات میں ایک بلند اور منفرد مقام بخشتے ہیں۔‘‘ فرانسیسی عالم مارنیر ابنِ خلدون کو ’’فلسفی مؤرخ، ماہر اقتصادیات اور اجتماعی علوم کا بڑا عالم‘‘ سمجھتا ہے۔

ابن خلدون کی تصنیف مقدمہ کو مارنیر ’’عالمگیر قوانین کا مجموعہ‘‘ اور عہدِ وسطیٰ کے علوم کی ’’انسائیکلوپیڈیا‘‘ قرار دیتا ہے جس میں اجتماعی علوم کے تمام عناصر موجود ہیں۔
ان تمام مفکرین کی آراء کو سامنے رکھ کر بلاخوفِ تردید یہ کہا جاسکتا ہے کہ ابنِ خلدون پہلا مفکر تھا جس نے تاریخ کو سائنس کا درجہ دیا، اس کے اصول وضع کیے۔ تاریخ کا نیا تصور پیش کیا اور بتایا کہ تاریخ کا مطالعہ کن اصول و قوانین کے پیش نظر کرنا چاہیے۔ اس نے پہلی بار تاریخ کا ایک مربوط اور واضح تصور پیش کیا۔ اس نے بتایا کہ انسان کی اجتماعی زندگی پر کون سی قوتیں اثر انداز ہوتی ہیں اور اسے آگے بڑھانے کا موجب بنتی ہیں۔ ابنِ خلدون پہلا شخص تھا جس نے انسانی معاشرے کے ارتقاء کے قوانین معلوم کرنے کی کوشش کی اور یہ غلط فہمی دور کی کہ تاریخ محض گزرے ہوئے زمانہ کے سمجھ میں نہ آنے والے واقعات اور حادثات کا انبار ہے۔ اس نے پہلی بار بتایا کہ تاریخ معاشرے کی حرکت اور ارتقاء کی داستان ہے اور انسانی معاشرہ کا ارتقاء فطری اسباب اور خارجی ماحول کا رہین منت ہے۔ اس نے وضاحت کی کہ انسانی تاریخ انسان کی معاشرتی تاریخ ہے۔

ابنِ خلدون پہلا مفکر تھا جس نے اس اہم اور بنیادی سوال کا جواب سائنٹفک طور پر دینے کی کوشش کی کہ معاشرے کے ارتقاء کے بنیادی اسباب کیا ہیں۔ جب تک اس سوال کا معقول جواب حاصل نہ کیا جائے زندگی کے متعلق صحیح نقطہ قائم نہیں کیا جاسکتا۔

مونٹسکو اور بکل سے پانچ سو سال قبل ابنِ خلدون نے معاشرے کی ترقی اور اس کے ارتقاء پر جغرافیائی اثرات کو اجاگر کیا اور انسان کے کردار، رنگ اور ہیئت پر ماحول اور آب و ہوا کے اثرات معلوم کیے۔ اس نے دکھایا کہ کس طرح انفرادی خصوصیات اور اجتماعی ادارے آب و ہوا کے اختلاف سے مختلف ہوتے ہیں۔ اس نے و اضح کیا کہ کس طرح جغرافیائی ماحول انسان کی زندگی، اس کے ذہن او راس کی طرزِ معاشرت کو متاثر کرتا ہے اور معاشرے کی تشکیل اور اس کے ارتقاء پر اثرانداز ہوتا ہے۔

یورپ کی فکر پر ابنِ خلدون کے اثرات کو معلوم کرنے سے پہلے خود اس کے نظریات کا مختصر طور پر جائزہ لینا ضروری ہے۔

ابن خلدون کا زمانہ مسلمانوں کے انحطاط کا دور تھا۔ وہ مسلمانوں کے عروج و زوال کی ایک مکمل تاریخ لکھنا چاہتا تھا۔ طریقِ تخفیف اور قوموں کے عروج و زوال کے اسباب پر غور و فکر نے اسے ایک تاریخ مرتب کرنے میں مدد دی۔ اس نے اس خیال کے پیش نظر کہ تاریخ کا مطالعہ کس روشنی میں کرنا چاہیے اپنی تاریخ کا مقدمہ لکھا جو آج کل انسانی ذہن کے بڑے کارناموں میں شمار کیا جاتا ہے اور اسے ایک علیحدہ اور مکمل تصنیف کا درجہ دیا جاتا ہے۔

ابنِ خلدون کے مقدمہ نے ایک سنگِ میل کی حیثیت حاصل کرلی ہے۔ اس کی سب سے اہم خصوصیت اس کی سائنٹفک اسپرٹ ہے۔ اس کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ جذبات سے علیحدہ رہ کر معروضی نقطۂ نظر سے حالات کا تجزیہ کیا گیا ہے اور نتائج اخذ کیے گئے ہیں۔ اپنے زمانے کی تمام مذہبی قدامت پسندی کے باوجود ابن خلدون پر مذہبی تصورات کا اثر بہت کم دکھائی دیتا ہے۔ مقدمہ کے مطالعے سے یہ بات آسانی سے سمجھ میں آجاتی ہے کہ مذہبی تصورات سے زیادہ اس پر یونانی فلسفے کا اثر پڑا۔ البتہ مقدمے میں کہیں کہیں قرآنی آیات کا حوالہ دیا گیا ہے۔ لیکن نہ تو ان آیات سے دلائل میں مزید اضافہ ہوتا ہے اور نہ ہی ان کا ابن خلدون کے نظریات کے ساتھ نامیاتی تعلق ظاہر ہوتا ہے۔

ابن خلدون کے فلسفے کے دو حصے کیے جاسکتے ہیں (۱) اجتماعی زندگی کے عام قوانین اور (۲) اجتماعی زندگی کے ارتقاء کے قوانین۔

ابنِ خلدون کے نظریات کے دونوں حصے ایک دسرے سے اتنے مربوط ہیں کہ انہیں ایک دوسرے سے جدا نہیں کیا جاسکتا، دونوں ایک مربوط موضوع کے اجزاء کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ابنِ خلدون کا موضوع انسان کی اجتماعی زندگی، اس اجتماعی زندگی کے پیچیدہ ادارے اور ان کا آپس میں تعلق ہے، اس سے زیادہ کچھ نہیں۔

سلطنتوں کے عروج کے وجوہ پر غور کرتے ہوئے اس نے یہ محسوس کیا کہ اجتماعی تبدیلیوں کے وجوہ کا انفرادی افراد کی خواہشات ارادوں یا امنگوں سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ وہ کہتا ہے کہ ان وجوہ کا دار و مدار جماعتی خصوصیات اور اجتماعی ماحول پر ہوتا ہے۔ افراد اور معاشرے کے عمل و ردعمل اور اجتماعی حالات کی اثر آفرینی نے اس کی توجہ ان عوامل کی طرف مبذول کرائی جو عام اجتماعی حالات کے ضامن ہوتے ہیں۔ مزید تحقیقات سے ابن خلدون پر یہ بات واضح ہوئی کہ مختلف ممالک اور مختلف زبانوں میں اجتماعی حالات مختلف رہے ہیں۔ نسلی خصوصیات کا بھی اجتماعی حالات کی تشکیل میں دخل ہوتا ہے۔ اس نے یہ بھی محسوس کیا کہ نسلی خصوصیات اور جسموں کی ساخت دائمی و ابدی نہیں۔ بلکہ جغرافیائی ماحول، آب و ہوا، غذا، پانی اور زمین کے ساتھ ساتھ تبدیل ہوتی رہتی ہے۔ اس طرح ابنِ خلدون نے تاریخ کے دائرے کو اتنا وسیع کردیا کہ اس میں انسان کی اجتماعی زندگی کے تمام پہلو آگئے اور تاریخ علمِ تمدن کے ساتھ وابستہ ہوگئی۔

ابنِ خلدون کو کبھی یہ خیال نہیں گزرا کہ اس نے تاریخ کی پورے طور پر تشریح کر دی ہے اور اس میں کسی ترقی کی گنجائش نہیں۔

(اس فکر انگیز اور معلوماتی مضمون کے مصنّف تقی احمد سید ہیں اور یہ تحریر 1950ء میں شایع ہونے والے ایک رسالے سے لی گئی ہے)

+ posts

اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں