تازہ ترین

کاروباری شخصیت کی وزیراعظم کو بانی پی ٹی آئی سے ہاتھ ملانے کی تجویز

کراچی: وزیراعظم شہباز شریف کو کاروباری شخصیت عارف حبیب...

وزیراعظم شہباز شریف کی مزار قائد پر حاضری

وزیراعظم شہباز شریف ایک روزہ دورے پر کراچی پہنچ...

ایران کے صدر ڈاکٹر ابراہیم رئیسی دورہ پاکستان مکمل کرکے واپس روانہ

کراچی: ایران کے صدر ڈاکٹر ابراہیم رئیسی دورہ پاکستان...

پاک ایران تجارتی معاہدے پر امریکا کا اہم بیان آگیا

واشنگٹن : نائب ترجمان امریکی محکمہ خارجہ کا کہنا...

تازی اور باسی مچھلی کی پہچان، مچھلیوں کی تازگی کے گریڈز

مچھلی انسانی غذا کا ایک بہت اہم جز ہے، مچھلی میں وہ خاص پروٹینز اور معدنیات پائی جاتی ہیں جو عام طور پر دوسری غذاؤں سے نہیں ملتیں، ضرورت کے مطابق ان کی کمی کو پھر ادویات کے ذریعے پورا کرنا پڑتا ہے۔

مچھلی میں اللہ نے اومیگا 3، فیٹی ایسڈ، وٹامن بی 12، 6،3،1،2، وٹامن ڈی3، سلینیم، کیلشیم، فاسفورس، آئرن، زنک غرض یہ کہ بے تحاشا فوائد رکھے ہیں، یہ وہ چیزیں ہیں جو ہارٹ اٹیک کے خطرات کم کر دیتی ہیں، اور ہمارا شوگر اور بلڈ پریشر لیول نارمل رکھتی ہیں۔

مچھلی ہڈیوں کی مضبوطی کے لیے بہت ضروری ہے، یہ فالج جیسے مرض کے خطرات کو کم کر دیتی ہے، کینسر جیسے جان لیوا مرض سے حفاضت کرتی ہے، اس کے علاوہ بھی متعدد فوائد ہیں جو ہم مچھلی کھا کر حاصل کر سکتے ہیں۔

مچھلی صرف سردی میں کھانی چاہیے؟

کہا جاتا ہے کہ مچھلی صرف سردی میں کھانی چاہیے، یہ ایک بہت بڑی غلط فہمی ہے، مچھلی کا استعمال سال کے 12 مہینے کرنا چاہیے، ڈاکٹر حضرات بھی ہفتے میں 2 بار مچھلی کھانے کا مشورہ دیتے ہیں۔

لیکن مچھلی سے اس کے تمام فوائد کے حصول کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ بھی پائی جاتی ہے، اور بدقسمتی سے ہم کم علمی کی وجہ سے مچھلی کی افادیت سے محروم رہ جاتے ہیں۔

مچھلی فروشوں کی دھوکے بازیاں

اس کی بڑی وجہ مچھلی کی پہچان نہ ہونا ہے، اسی چیز کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مچھلی فروش باسی مچھلی کو تازی کہہ کر فروخت کر دیتے ہیں، عام طور سے مچھلی فروش آپ کو سب سے پہلے مچھلی کے گلپھڑے کھول کر دکھاتا ہے، جو مضر صحت فوڈ کلر استعمال کر کے لال کیا ہوا ہوتا ہے، اور تو اور کچھ مچھلی فروش مچھلی ہی غلط دے دیتے ہیں، مثال کے طور پر سرمئی بول کر سارم اور ٹونا بیچ دیتے ہیں۔

مچھلی کی چمک بھی تازگی کی پہچان ہوتی ہے لیکن کچھ مچھلی فروشوں نے اس کا بھی حل نکال لیا ہے، اور پانی میں تیل ملا کر مچھلی پر اسپرے کرتے رہتے ہیں۔

بعض اوقات آپ کو مارکیٹ میں پہلے سے بون لیس کی ہوئی مچھلی بھی نظر آتی ہے، جو مُشکا مچھلی کے نام پر فروخت کی جاتی ہے لیکن وہ مشکا قطعی نہیں ہوتی، اس لیے پہلے سے کٹی ہوئی مچھلی اور صاف شدہ جھینگا خریدنے سے اجتناب کریں۔

کچھ مچھلیوں کی شکل ایک دوسرے سے ملتی جلتی ہے، اسی چیز کا فائدہ اٹھاتے ہوئے سستی مچھلی کو مہنگی مچھلی کے دام پر بھی بیچ دیا جاتا ہے۔ بازار میں فرائی مچھلی بیچنے والے بھی جھوٹ سے کام لیتے ہیں اور سستی مچھلی کو مہنگی مچھلی بتا کر بیچتے ہیں، کیوں کہ مچھلی کٹنے اور مصالحہ لگنے کے بعد نہیں پہچانی جا سکتی۔

پہچان

مچھلی کی پہچان کے حوالے سے کچھ ضروری باتیں درج ذیل ہیں:

– تازہ مچھلی ہمیشہ سخت ہوگی، مچھلی کو انگلی سے دبائیں تو وہ واپس اصلی حالت میں آ جاتی ہے۔

– تازہ مچھلی کی آنکھ سفید ہوگی، لال آنکھ یا اندر دھنسی ہوئی آنکھیں باسی مچھلی کی پہچان ہیں۔

– تازہ مچھلی کے گلپھڑے میں ایک لیس ہوگی جو وقت کے ساتھ ساتھ کم ہوتی جاتی ہے۔

– مچھلی کے گلپھڑے میں ہاتھ لگا کر بھی دیکھ سکتے ہیں کہ اصلی رنگ ہے یا کلر استعمال کیا گیا ہے۔

– تازہ مچھلی کی ایک پہچان یہ بھی ہے کے جب آپ مچھلی کو سر کی طرف سے پکڑ کر اٹھائیں گے تو مچھلی لٹکنے کی بجائے سیدھی رہے گی۔

گریڈ کے حساب سے قیمت

مچھلی کی قیمت کی بات کی جائے تو مچھلی اپنے گریڈ کے حساب سے بکتی ہے، اے، بی اور سی گریڈ۔

اگر A گریڈ کی مچھلی کی قیمت 1000 روپے کلو ہے، تو B گریڈ کی 700 سے 800 رہے تک، اور C گریڈ کی 500 سے 600 روپے تک ہوتی ہے۔

عام طور پر ہمارے قریبی بازاروں میں B اور C گریڈ مچھلی فروخت ہوتی ہے، اگر آپ کو A گریڈ مچھلی خریدنی ہے تو آپ کو فشری کا رخ کرنا پڑے گا، کراچی میں مچھلی کی 2 منڈیاں لگتی ہیں۔ پہلی منڈی رات 4 بجے سے صبح 9 بجے تک لگتی ہے، جسے گجے کی منڈی کہا جاتا ہے، گجے کا مطلب ان کشتیوں کا مال ہوتا ہے جو کشتیاں ایک یا دو مہینے کے لیے سمندر میں شکار کے لیے جاتی ہیں۔ اتنے عرصے میں مچھلی کی کوالٹی گر جاتی ہے اور یہ مچھلی تھوڑی سستی ہوتی ہے۔

دوسری منڈی دوپہر 3 بجے سے مغرب تک لگتی ہے، اس وقت کی مچھلیاں ان کشتیوں والی ہوتی ہیں جو 12 اور 24 گھنٹے کے لیے شکار پر جاتی ہیں، ان کشتیوں کی مچھلیاں A گریڈ اور ایکسپورٹ کوالٹی کی ہوتی ہیں، اس لیے یہ مچھلیاں گجے کی مچھلیوں سے مہنگی ہوتی ہیں۔

کانٹے

مچھلی میں کانٹوں کے حوالے سے بات کی جائے تو سمندر کی 99 فی صد مچھلیوں میں صرف بیچ کا ایک کانٹا ہوتا ہے، جسے کنگی کہتے ہیں، اور گوشت میں کانٹے نہیں ہوتے۔

زیادہ کانٹے میٹھے پانی یعنی دریائی مچھلی میں پائے جاتے ہیں، جن میں رہو، گلفام، تلاپیا، کتلا، پلہ، سنگاڑہ، ملی اور مہاشیر شامل ہیں، جب کہ زیادہ کانٹوں والی سمندری مچھلیوں میں سافی، سمندری بام، سمندری پلہ اور سلیمانی شامل ہیں۔

یاد رہے کہ دریا یا ڈیم یعنی میٹھے پانی کی مچھلیاں اب مارکیٹوں میں دستیاب نہیں ہیں، مارکیٹوں میں جتنی بھی میٹھے پانی کی مچھلیاں ہیں وہ سب فارم کی ہوتی ہیں، جو قدرتی حالات میں نہیں پلتیں، اس لیے انھیں لینے سے گریز کرنا چاہیے کیوں کہ یہ صحت بخش نہیں ہوتے، یہ بھی ذہن میں رہے کہ سمندری مچھلی کی فارمنگ نہیں ہو سکتی۔

چھلکے

ایک اہم بات یہ کہ، مچھلی کے چھلکے (Scales) کے حوالے سے کچھ غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں، کچھ لوگ بغیر چھلکے کی مچھلی کھانے سے گریز کرتے ہیں، لیکن دیکھنے میں آیا ہے کہ عام طور پر لوگوں کو اس بات کا علم نہیں ہوتا کہ کون سی مچھلی چھلکے والی ہوتی ہے۔

اکثر لوگ کالا پاپلیٹ، سارم، امروز کو بھی بغیر چھلکے کی مچھلی سمجھتے ہیں لیکن ایسا نہیں ہے، ان مچھلیوں پر باریک چھلکا موجود ہوتا ہے۔

بغیر چھلکے والی سمندری مچھلیوں میں سرمئی، سفید پاپلیٹ، ٹونا، شارک، سوارڈ فش اور کیٹ فش شامل ہیں۔

مچھلی بے شک طاقت کا خزانہ ہے لیکن مچھلی کے یہ سب فوائد ہم تازہ مچھلی یعنی A گریڈ کا انتخاب کر کے ہی حاصل کر سکتے ہیں۔

Comments

- Advertisement -