تازہ ترین

پاکستان کو آئی ایم ایف سے 6 ارب ڈالر قرض پروگرام کی توقع

وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ...

اسرائیل کا ایران پر فضائی حملہ

امریکی میڈیا کی جانب سے یہ دعویٰ سامنے آرہا...

روس نے فلسطین کو اقوام متحدہ کی مکمل رکنیت دینے کی حمایت کردی

اقوام متحدہ سلامتی کونسل کا غزہ کی صورتحال کے...

توہین عدالت کیس : سابق جج رانا شمیم ، میرشکیل الرحمان اور انصار عباسی کو شوکاز نوٹس جاری

اسلام آباد : اسلام آباد ہائیکورٹ نے سابق جج کےالزامات پر توہین عدالت کیس میں رانا شمیم ، میرشکیل الرحمان ،انصار عباسی سمیت دی نیوز کے ایڈیٹر عامر غوری کو شوکاز نوٹس جاری کردیا۔

تفصیلات کے مطابق اسلام آبادہائیکورٹ میں سابق جج راناشمیم کے الزامات پر توہین عدالت کیس کی سماعت ہوئی ، اٹارنی جنرل پاکستان خالد جاوید ، چیف ایڈیٹر میرشکیل الرحمان ، دی نیوزکےایڈیٹرعامرغوری اور انصار عباسی عدالت میں پیش ہوئے۔

سابق جج رانا شمیم عدالتی حکم کے باوجود ہائیکورٹ نہیں آئے ، راناشمیم کے صاحبزادے نے کمرہ عدالت میں ویڈیوچلانےکی اجازت مانگیْ

چیف جسٹس ہائی کورٹ اطہرمن اللہ نے میرشکیل الرحمان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ میرشکیل صاحب بہت بھاری دل کیساتھ آپ کو طلب کیاہے،یہ عدالت آزاد اورآئینی ادارہ ہے، فریڈم آف پریس اہم ہے ،سوشل میڈیا اورپریس میں فرق ہے۔

چیف جسٹس اطہرمن اللہ کا کہنا تھا کہ عدالت پر لوگوں کا اعتماد بحال کرنا ہے، ہائیکورٹ نے عوام کے حقوق کاتحفظ کسی ڈر اور خوف کے بغیر کیا، آپکی رپورٹ نے ہائیکورٹ پر سوالات اٹھا دیئے ہیں۔

چیف جسٹس ہائی کورٹ نے ریمارکس دیئے کہ عدالت کے ہرایک جج کےاوپرمجھےبھروسہ اوراعتمادہے، ججزبھی قابل احتساب ہیں اوران پرتنقید بھی ہونی چاہیے، عوام کا اعتماد عدالت سے اٹھ گیا تو بے یقینی پیداہو جائے گی، ہائیکورٹ کوسائلین کیلئےقابل احتساب سمجھتاہوں۔

چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے انصار عباسی کو کہا آپ اپنی اخبارکی خبرکی ہیڈ لائن پڑھیں، انصار عباسی نے اپنی خبر کی ہیڈ لائن عدالت میں پڑھی۔

جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ یہ اسلام آباد ہائیکورٹ ہےجوکسی سےہدایت نہیں لیتی ، یہ حلف نامہ کسی عدالتی ریکارڈ کا حصہ تک نہیں۔

چیف جسٹس نے انصار عباسی سے استفسار کیا کیا آپ نےرانا شمیم سےپوچھاانہوں نے حلف نامےکولندن سےنوٹرائزکیا ، جس پر انصار عباسی نے استدعا کی کہ عدالت مجھے دومنٹ بات کرنےکی اجازت دے۔

چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا جس دن کی بات ہے اس دن نہ میں ملک میں تھانہ جسٹس عامرفاروق ، انصار عباسی صاحب یہ بات رجسٹرارآفس سے ہی چیک کر لیتے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کیا کیس کی سماعت کے بعد تاریخ پر ایپلٹ وکلانےاعتراض کیا؟ یہ وقت عدالتی سالانہ چھٹیوں کا تھا مگرآپ نے رجسٹرار سے پوچھا تک نہیں، جب کیس مقررہواجسٹس عامر فاروق اورمیں پاکستان میں نہیں تھے، جسٹس محسن اختر کیانی ، جسٹس گل حسن اورنگزیب پاکستان میں تھے، درخواست گزار اور ان کے وکلاکون تھے۔

جسٹس اطہرمن اللہ نے مزید سوال کیا کہ کیاکسی وکیل دفاع نےاستدعاکی کہ انتخابات سےقبل سماعت مقررکی جائے،وکلانے عام انتخابات کے بعد کیس مقرر پر کوئی اعتراض نہیں کیا، جب فیصلہ ہوا، اسی دن فیصلہ معطل ہوا،اس کی ماضی میں مثال نہیں ملتی، رجسٹرار سے پتہ کریں ایک سال سے 2بینچز کام کر رہے تھے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ میر شکیل صاحب روسٹرم پر آکر اسٹوری ہیڈلائن پڑھنےکی ہدایت کی ، جس پر میر شکیل الرحمان نے کہا میرے عینک نہیں ہے تو عدالت نے صحافی انصار عباسی کو اسٹوری ہیڈلائن پڑھنے کی ہدایت کی۔

جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دیئے کہ اس ہائیکورٹ کے ججز پر تنقید ضرور کریں مگر لوگوں کا اعتماد نہ اٹھائیں، ہم اپنے آپ کو ڈیفنڈ نہیں کرسکتے ،میرے خلاف کئی بار سوشل میڈیا پر کمپین چلائی گئی ، آپ کو کوئی بیان حلفی دے تو کیا اسے فرنٹ پیج پر چھاپ دیں گے ، یہ کیسز غیر جانبدار ہوں گے۔

چیف جسٹس ہائی کورٹ نے استفسار کیا کیا اس عدالت میں کوئی بتا سکتا ہے کہ ہم نے کسی سے آرڈر لیاہے ،یہ بیان حلفی اس عدالت کے کسی عدالتی ریکارڈ کا حصہ بھی نہیں۔

جسٹس اطہرمن اللہ نے استفسار کیا سابق جج نے بیان حلفی کو کہاں پرنوٹرائز کیا ؟ انہوں نے بیان حلفی کو باہر کیوں نوٹرائز کیا ؟ آپ انویسٹی گیشن کے ماہرصحافی ہیں کیا آپ نے خودانویسٹی گیشن کی؟ 16جولائی کو اپیل دائر ہوئی ،کون سا بینچ بنا ؟ جس وقت اپیل دائر ہوئی میں اور جسٹس عامر فاروق بیرون ملک تھے۔

چیف جسٹس نے انصار عباسی سے استفسار کیا کیا آپ نے ہائیکورٹ کے رجسٹرار سے پتہ کیا ؟اس کیس میں ملک سے نامی گرامی اچھے وکلا شامل تھے ، کیا آپ نے ان وکلاسے پوچھا کہ انہوں نے الیکشن سے پہلےڈیٹ مانگی، انہوں نےایسا کچھ نہیں کیا کیونکہ وہ پروفیشنل لوگ ہیں ،ان کو پتہ ہے۔

ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ مجھ سے متعلق کوئی دوسرا چیف جسٹس ایسی بات کرے توتحریری شکایت جوڈیشل کونسل کو بھیجوں گا، جسٹس جج کا نام آپ نے خالی چھوڑ دیا، بار بار اعتراض اٹھایا جاتا ہے کہ بینچزکوئی اور بناتا تھا،ہائیکورٹ میں لوگوں کا اعتماد تباہ کرنے کیلئےباتیں شروع ہوئیں۔

جسٹس اطہرمن اللہ نے مزید کہا کہ میرے سامنےکوئی جج ایسےکہےمیں سپریم جوڈیشل کونسل جاؤں گا، ایک چیف جسٹس کسی کے سامنے کہے کہ جرم کرو، پھر جرم کے بعد پھر 3سال خاموش رہا جائے، پھر ایک پراسرار بیان حلفی سامنے آجاتا ہے، اخبار نے کیسے ایسا بیان خلفی چھاپ دیا، عدالتی نظام انصاف کو مسلسل متاثر کیا جا رہا ہے۔

رانا شمیم کے بیٹے نے عدالت کو بتایا کہ رانا شمیم سگے بڑے بھائی کی وفات کےباعث پیش نہیں ہو سکے، دوران سماعت وکیل رانا حسن کا کہنا تھا کہ والدرانا شمیم کیساتھ فیصل واوڈا کوبھی نوٹس ہونا چاہیے، کیا آپ نے کل فیصل واوڈا کی گفتگو سنی ہے؟ جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ میں کیس کو دوسری کسی چیز سے مکس نہیں ہونے دوں گا، آپ الگ سے درخواست دیں۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا اٹارنی جنرل صاحب غلط ،جھوٹا حلف نامے سے کیا کارروائی کی جا سکتی ہے؟ اٹارنی جنرل نے بتایا حلف نامے نے پوری ہائیکورٹ کو اسکینڈلائزکر دیا ہے، یہ بہت سنجیدہ اور کرمنل معاملہ ہے۔

جسٹس اطہرمن اللہ کا کہنا تھا کہ ایک سال سے 2ڈویژن بینچز تھے جس نے پورےہائیکورٹ کوچلایا، میرے ساتھ جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب ایک ڈی بی میں تھے، دوسرےڈی بی میں جسٹس عامرفاروق ،جسٹس محسن کیانی شامل تھے، آپ نے عدالت پرانگلی اٹھائی، معزز جج کے خلاف اسٹوری کی، آپ لوگوں کا اس عدالت سے اعتماد تباہ کرنا چاہتے ہیں۔

چیف جسٹس نے مزید کہا کہ بڑے اخبار نے فرنٹ پیج پر اسٹوری کی جس سے عوام کا اعتماداٹھاتاہے، ہم پر تنقید کریں مگر لوگوں کا اعتماد عدالتوں پر بحال رہنے دیں۔

انصار عباسی کا کہنا تھا کہ حلف نامہ کی خبر میری ہے اور میں نے ہی کی، ایک جانب سابق چیف جسٹس پاکستان تھے ، دوسری جانب سابق چیف جسٹس گلگت بلتستان تھے، جس پر چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا نہیں یہ معاملہ اسلام آبادہائیکورٹ سےمتعلق تھا۔

انصارعباسی نے مزید کہا خبر میری ہے ان کا اس سے کوئی تعلق نہیں، میرے خلاف توہین عدالت کی کارروائی ضرور کریں، اس سنجیدہ معاملے کی انکوائری ضرور ہونی چاہیے۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے عامر غوری سے استفسار کیا غوری صاحب آپ نےخبر بطور ایڈیٹر نیوز پڑھی ہوگی، تو کیا آپ نے اس کی اجازت دی ، جس پر ایڈیٹر دی نیوز عامر غوری نے بتایا کہ ہمارے پاس ایک نوٹرائز حلف نامہ آیا تو اس پر خبر دی۔

غوری صاحب یہ حلف نامہ کسی عدالتی ریکارڈ کا حصہ نہیں تھا ، میں سب کو شو کازنوٹس جاری کرنے جا رہا ہوں، تاثر یہ ہے کہ حلف نامہ جھوٹا اور غلط ہے، میں سب کے سامنے خود کوقابل احتساب سمجھتا ہوں۔

اسلام آباد ہائیکورٹ نے میرشکیل الرحمان ،انصار عباسی ، سابق جج رانا شمیم اور دی نیوز کے ایڈیٹر عامر غوری کو شوکاز نوٹس جاری کردیا اور فریقین کو 24نومبر تک جواب جمع کرانے کی ہدایت کردی۔

بعد ازاں اسلام آباد ہائی کورٹ نے سابق جج راناشمیم کےالزامات پرتوہین عدالت کیس کی سماعت 10دن تک کیلئے ملتوی کردی۔

سابق جج کے انکشافات کا نوٹس


گذشتہ روز اسلام آباد ہائی کورٹ نے نواز شریف اور مریم نواز کی اپیلوں سے متعلق گلگت بلتستان کورٹ کے سابق جج کے انکشافات کا نوٹس لیا تھا۔

راناشمیم کوتوہین عدالت کانوٹس جاری


بعد ازاں اسلام آباد ہائی کورٹ نے دوران سماعت سابق چیف جسٹس جی بی راناشمیم کوتوہین عدالت کانوٹس جاری کرتے ہوئے تمام فریقین کو10 بجے ذاتی حیثیت میں طلب کر لیا تھا۔

عدالت نے اٹارنی جنرل خالد جاوید خان کو بھی ذاتی حیثیت میں طلب کرتے ہوئے چیف ایڈیٹر میرشکیل الرحمان ، دی نیوز کے ایڈیٹر عامرغوری اور انصارعباسی کو بھی نوٹسز جاری کئے۔

عدالتی حکم نامے میں کہا گیا کہ کیوں نہیں توہین عدالت آرڈیننس2003 کے تحت کارروائی کی جائے، رجسٹرار آفس ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد کو بھی نوٹس جاری کرے۔

عدالت کا کہنا تھا کہ خبر زیر التوااپیلوں سےمتعلق ہےجو 17 نومبر کو سماعت کےلئےمقرر ہے، راناشمیم کا دعویٰ ہے وہ سابق چیف جسٹس کی ٹیلیفونک گفتگوکاگواہ تھا۔

حکم نامے میں کہا گیا کہ خبر کے مطابق ثاقب نثار نےنواز شریف، مریم کو رہا نہ کرنے کی ہدایت کی، سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے مبینہ طور پر معزز جج کو ہدایت کی تھی جبکہ خبر میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ رانا محمد شمیم نے تصدیق کی ہے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کا کہنا تھا کہ عدالت کےباہرمقدمہ چلنا زیر التوامعاملےکومتاثر کرنے کا رجحان رکھتا ہے،یہ معاملہ مجرمانہ توہین کے جرم کو راغب کرتا ہے، دی نیوز میں شائع رپورٹ زیرالتوامعاملےمیں کارروائی کومتاثرکرتی ہے اور اس کااثرانصاف میں رکاوٹ ڈالنے یا انصاف کی وجہ کو ہٹانے پر ہوتا ہے۔

حکم نامے کے مطابق معاملے کے زیر التوا رپورٹس کاشائع ہوناتوہین کی سب سےسنگین شکل ہے، شائع رپورٹ عدالت کو بدنام،عوام کا اعتماد مجروح کرنے کے مترادف ہے، یہ نوٹ کیا جاتا ہے کہ انصاف کی سالمیت کو برقرار رکھنا عوامی مفاد میں ہے،تنازعات کافیصلہ منصفانہ طریقے سےہوناقانون کی حکمرانی کیلئے ناگزیر ہے۔

Comments

- Advertisement -