تازہ ترین

پاکستان نے انسانی حقوق سے متعلق امریکا کی رپورٹ مسترد کردی

اسلام آباد: پاکستان نے امریکی محکمہ خارجہ کی انسانی...

وزیراعظم کی راناثنااللہ اور سعد رفیق کو بڑی پیشکش

اسلام آباد: وزیراعظم شہباز شریف اور اسحاق ڈار نے...

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پروٹوکول واپس کر دیا

چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے چیف...

کاروباری شخصیت کی وزیراعظم کو بانی پی ٹی آئی سے ہاتھ ملانے کی تجویز

کراچی: وزیراعظم شہباز شریف کو کاروباری شخصیت عارف حبیب...

سال 2018 کی اہم کتابیں اور چند سوالات

تحریر و تجزیہ: سیمیں کرن

ایک ایسے وقت میں، جب یہ شوروغوغا ہے کہ ادب پھل پھول نہیں رہا، کتاب کلچر کو انٹر نیٹ نگل لیا ہے، دنیا ایک بالکل نئی کروٹ لے چکی، وہاں موجودہ اردو ادب کو پرکھنے اور اُس پر بات کرنے کی پہلے سے زیادہ ضرورت ہے۔

کیا اُردو ادب تخلیق نہیں ہو رہا؟ ایسا ادب جو بین الاقوامی معیارات کا مقابلہ کر سکے، کیا کتاب کلچر ہمارے بیچ سے غائب ہو چکا ہے؟ کیا کتاب کی جگہ واقعی نیٹ اور سوشل میڈیا لے چکا ہے؟

اِن سوالوں کا جواب ڈھونڈنا ناگزیر اِس لیے بھی ہو جاتا ہے کہ نئی صدی کی دوسری دہائی اختتام پذیر ہے اور گذشتہ بیس تیس برس ایک مکمل بدلے اورنئے سماج کے دعوے دار ہیں، جہاں سیاست ہماری جذباتی دنیا میں بری طرح داخل ہو چکی ہے، عام شخص کا سیاسی شعور مزید بالغ ہو چکا ہے۔

[bs-quote quote=”قرة العین حیدر کہتی ہیں: ”پتھر وقت کی منجمد صورت ہیں۔“ اور اگر یہی بات کسی اچھی کتاب کے بارے میں کہی جائے تو کچھ ایسا غلط نہیں” style=”style-7″ align=”left”][/bs-quote]

اُردو زبان کا شمار برصغیر کی اہم زبانوں میں ہوتا ہے، ایک ایسی زبان جسے پڑھنے اور بولنے والے دُنیا کے ہر خطے میں موجود ہیں، جو پاکستان کی قومی زبان ہے، یہ ہندوستان میں ایک بڑی آبادی میں بولی اور سمجھی جاتی ہے، ہندوستان اُردو ادب میں مسلسل حصہ بھی ڈالا جا رہا ہے، لیکن اِس کے باوجود اُردو ادب زوال پذیر ہے کا سلوگن کیوں گردش عام ہے؟

اِن حالات میں اس سوال کے معنی خیزی نہ صرف ادب کے لکھاری کے لیے بڑھ جاتی ہے بلکہ قاری بھی اس سوال کوپوچھنے میں حق بجانب ہے، اس خطے کا سماج ایک گھٹن، انتشار اور شدت پسندانہ رویوں کا ثمرکاٹ رہا ہے، پاکستان میں غیر مستحکم جمہوری اقدار اور ہندوستان میں شدت پسند ہندو سیاست، جو اُردو کو ایک اقلیت کی زبان بنانے کے درپے ہے، یہ وہ مسائل، چیلنجز اور سوال ہیں جو اُردو ادیب کو درپیش ہیں اور جن کو جواب ڈھونڈنے میں شاید اس کا حل بھی پنہاں ہے۔

یہ سوال اہم ہے کہ کیا آج کا ادیب موجودہ سوالات سے عہدہ برآ ہونے کے لیے تیار ہے؟ اگر ہمارے پاس اِس سوال کا کوئی واضح جواب ہے ،تو یقیناً ہم باقی سوالوں اور  مسائل کی جانب مثبت پیش رفت کے قابل ہوں گے۔

یہ سوال اپنی جگہ ہیں، مگر کتابوں کی اشاعت، اُس کاتذکرہ ناگزیر ہی نہیں، بلکہ خوش آئند بھی ہے اور اِس دعوے کی نفی بھی کہ ادب زوال پذیر ہے اور ناپید ہو رہا ہے۔

فکشن کے میدان میں قابل ذکر کتب

سال 2018 میں سامنے آنے والی کتب و جرائد کا جائزہ لیا جائے، تو ہمارے پاس کہنے کو بہت کچھ ہے، صورت حال یقینا خوش آئند اور اُمید افزا ہے۔ قرة العین حیدر کہتی ہیں: ”پتھر وقت کی منجمد صورت ہیں۔“ اور اگر یہی بات کسی اچھی کتاب کے بارے میں کہی جائے تو کچھ ایسا غلط نہیں۔ اِس سال ایسا بہت کام ہوا جو نہ صرف قابلِ ذکر ہے، بلکہ اُردو ادب میں ایک گراں قدر اضافہ سمجھا جائے گا۔

سب سے پہلا تذکرہ مستنصر حسین تارڑ کے ناول ”منطق الطیر ، جدید “کا ہے۔ تارڑ صاحب کے ناول کے کچھ اِختصاصات ہیں، جن میں پرندے سرفہرست ہیں۔ فریدالدین عطا رکے یہ پرندے مستنصر حسین تارڑ کی باطنی دنیا میں ہی نہیں پھڑپھڑاتے، بلکہ یہ پرندے ان کی ادبی کائنات میں بھی پرواز کرتے ملتے ہیں۔ یہ پرندے ” خس و خاشاک زمانے میں “ بھی منسوب ٹھہرتے ہیں۔ یہ تارڑ کے ساتھ ساتھ محوِپرواز رہتے ہیں۔ ایسا ناول لکھنے کی ہمت مستنصر حسین تارڑ جیسا کہنا مشق ادیب ہی کر سکتا تھا۔ جس کے ساتھ مطالعہ کی کثرت ہم رکاب ہے وہ چاہے سفر کی صورت ہو یا کتاب کی۔ تارڑ ہر صورت مطالعہ کے خوگر ہیں اور یہی اُس کی تحریر کو ایک لازوال چاشنی عطا کرتی ہے۔ اُنھوں نے ان گذشتہ دو دہائیوں میں اُردو ادب کو بلا مبالغہ ایسے بڑے ناولز سے نوازا، جس کو اہم عالمی ادب کے سامنے فخر سے رکھ سکتے ہیں۔

خالد فتح محمد بھی اُن ناموں میں شامل ہیں جنھوں نے اُردو ادب میں معتبر اضافہ کیا ہے۔ اُن کا اسلوب سادہ و دل نشین ہے، بغیر کسی اُلجھا وے کے وہ اپنی بات و سوچ قاری تک پہنچا دیتے ہیں۔ ”شہر مدفون“ اور ” خلیج “کے بعد اُن کا تازہ ناول ”سانپ سے زیادہ سراب “ سامنے آیا ہے۔

محمد الیاس بھی اُن معتبر ناموں میں شامل ہیں، جنھوں نے گذشتہ دو دہائیوں میں اُردو ادب میں گراں قدر اضافہ کیا ہے۔ متعدد افسانوی مجموعے اور ناول اُن کے کریڈٹ پر ہیں۔ کہر، برف، بارش، پروا اور دھوپ جیسے بڑے ناول وہ اردو اَدب کو دے چکے ہیں اور امسال اُن کا ناول ” عقوبت“ اُمید ہے کہ اشاعت ہو کر سامنے آ جائے گا۔

اختر رضا سلیمی بھی ایک اہم ناول نگار کی صورت اُبھر کر سامنے آئے ہیں۔ گزشتہ برس اُن کے پہلے ناول ”جاگے ہیں خواب میں“ کا تیسراایڈیشن شائع ہوا، جب کہ دوسرا ناول ”جندر“ بھی سامنے آیا، اس سال اِن کے دو ناولوں کا خوب تذکرہ رہا۔ ہزارہ کے پس منظر میں لکھے گئے یہ دونوں ناولز یقیناً ایک گراں قدر اضافہ ہیں۔

سید کاشف رضا کا ناول ”چاردرویش اور کچھوا“ اِس برس کا ایک اہم اور عمدہ ناول ہے۔ ناول، آغاز میں دیے ژاں بودریلارد کے اِس بیان کی بہترین مثال ہے کہ آج کا فن حقیقت میں مکمل طور پر گھس گھسا چکا ہے اور دوسرے باب کے آغاز میں ژاں بودریلارد کا کہنا ہے کہ اول تو یوں کہ فن بنیادی حقیقت کا عکس ہے۔ یہ ناول پڑھتے ہوئے یہ گمان ہوتا ہے کہ اِس کا بیانیہ حقیقت میں گھس گھسا چکا ہے یا کسی حقیقت کا عکس ہے۔ پاکستان کا سیاست کا ایک باب بے نظیر کی شہادت اور طالبان کی کاشت کاری ایسے موضوعات کی عکس بنیادی مصنف کچھ ایسے کی ہے کہ گویا کوئی قلم سامنے چل رہی ہے، جس میں مصنف خود کسی کچھوے کے خول میں جا چھپا ہے۔

[bs-quote quote=”تمام تر مسائل کے باوجود ادب تخلیق ہو رہا ہے اور کتابیں سامنے آ رہی ہیں” style=”style-7″ align=”left”][/bs-quote]

آمنہ مفتی کا ناول ”پانی مر رہا ہے“ بھی قابلِ تذکرہ ہے، وہ ایک عمدہ لکھاری اور ڈرامہ رائٹر ہے، فارس مغل بھی ایک تیز رفتار لکھاری ہیں اور یکے بعد دیگرے اُن کے دو ناول سامنے آئے ہیں۔ ”ہم جان“ اُن کا پہلا ناول تھا اور اِس برس اُن کا ناول ”سوسال وفا“ سامنے آیا ہے، جس میں ایک حساس اور سنجیدہ موضوع کو ایک محبت کی کہانی کی صورت میں پیش کیا ہے۔

مشرف عالم ذوقی افسانے اور ناول کی دنیا کاوہ اہم نام ہے، جو اب اساتذہ میں شمار ہوتے ہیں، گذشتہ دودہائیوں میں وہ سلگتے مسائل اور عالمی و سماجی بدلاؤ کو اپنے ناولز کا موضوع بناتے رہے ہیں، اِس برس اُن کی ایک ہی تسلسل میں پانچ طویل کہانیاں، ہندوستان کے سیاسی پس منظر اور گھٹن کی بہترین عکاس رہیں۔

ڈاکٹر ناصر عباس منیر جو ایک معتبر ادبی نقاد ہیں کا افسانوی مجموعہ ”راکھ سے لکھی گی کتاب “ قابلِ ذکر اضافہ ہے، سید ماجدشاہ کے افسانوی مجموعے ”ق“ کے بعد”ر“ ان کا دوسرا مجموعہ ہے۔ جو اُن کے مختصر افسانوں و افسانچوں پہ مشتمل ہے۔

امین ھایانی کایہ دوسرا افسانوی مجموعہ ”بے چین شہر کی ُپرسکون لڑکی“ سامنے آیا ہے۔ محترم حمید شاہد کے رائے فلیپ پر شامل ہے۔ امین ھایانی کے افسانوں کا مطالعہ کرتے ہوئے یہ احساس ہوتا ہے کہ وہ ایک دردمند اور حساس لکھاری ہیں۔

سبین علی نوجون لکھاریوں میں ایک عمدہ اضافہ اور اہم نام ہیں مختلف اور اہم موضوعات پر قلم اٹھاتی ہیں۔ صاحبِ مطالعہ اور عمدہ تنقیدی فکر رکھتی ہیں۔

جواد حسنین بشر جواد جو ابن مسافر کے قلمی نام سے لکھتے ہیں، ان  کے یکے بعد دیگرے دو افسانوی مجموعے آئے ہیں۔ پہلا مجموعہ ”سفرناتمام “تھا اور اِس برس دوسرا مجموعہ ”ہاتھ ملاتا دریا اور مقدس بیٹی“ منظرعام پر آیا ۔ جواد ایک جرات آمیز افسانہ نگار ہیں اور نئے موضوعات پہ لکھنے کے خوگر روایتی موضوعات کے علاوہ جدید موضوعات و مسائل پر بھی ان کی گہری نظر ہے۔ 

ایک نظر شعری مجموعوں‌ پر

شعری دنیا پہ نظر ڈالیں تو کئی مجموعے منظرعام پر آئے، امجد اسلام امجد جیسے سینئر شاعر کی کتاب امجد فہمی حال ہی میں شایع ہوئی۔ ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا کا نیا شعری مجموعہ انتشار آیا، نصیر احمد ناصر کے کلیات کے علاوہ ملبے میں ملی چیزیں کا نیا ایڈیشن سامنے آیا۔ نئی نسل و نئے شعرا بڑی تعداد میں سامنے آ رہے ہیں، ڈاکٹر جواز جعفر کی نظموں کا مجموعہ ”متبادل دنیا کاخواب“ قابلِ ذکر ہے۔

شہزاد نیر جو ایک اہم اور کہنہ مشق شاعر ہیں، اُن کا شعری مجموعہ خواہشار بھی قابلِ ذکر ہے۔ ارشد معراج کی نظموں کا مجموعہ ”دوستوں کے درمیاں“ قابلِ ذکر ہے۔ حفیظ تبسم کا نظموں کا مجموعہ ”دشمنوں کے لےے نظمیں“اِک نئے ذائقے کا آہنگ ہے۔

ظہور چوہان جن کے تین مجموعے اِس سے پہلے آ چکے، اُن کا شعری مجموعہ ”رودنی دونوں طرف“ اِس برس منظرعام پر آیا۔ شوزیب کاشر،اک جواں سالہ خوبصورت لب و لہجے کے نوجوان شاعر ہیں اور شعری دنیا میں عمدہ اضافہ ہیں۔ اُن کا شعری مجموعہ ”خمیازہ“ اِس برس شایع ہوا۔

ثمینہ تبسم ایک منجھی ہوئی شاعرہ ہیں، چار کتب پہلے منظر عام پر آ چکیں، اِس برس اُن کی کتاب ”سربلندی تیری عنایت ہے اشاعت پذیر ہوئی ہے، ناز بٹ کی نظموں و غزلوں کا پہلا مجموعہ ”وارفتگی“ منظرعام پر آیا ہے.

شعر و ادب کی تخلیقی کتب کے علاوہ کچھ اور اہم قابلِ ذکر کتابیں ہیں، جن کا ذکر ہونا چاہیے۔

جبار مرزا ایک کہنہ مشق قلم کار ہیں ہیں،اُن کی کتاب ”نشانِ اِمتیاز“ محسنِ پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر سے متعلق چار عشروں کی یادداشتوں پر مشتمل ہے، جمیل احمد عدیل کے فن پر شایع ہونے والی کتاب ”صاحبِ اسلوب“ کے نام سے اُن کے ادبی محاسن کا احاطہ کیا گیا ہے، یاسرجواد جو کہ ایک معروف مترجم و محقق ہیں، اِس برس اُن کی سرائیکی ویب کی تاریخ، نوبیل اِنعام یافتہ ادیبوں کے خطبات، پنجاب میں دیسی تعلیم (سرلائنز)، ضرب الامثال اور محاورے (فرہنگِ آصفیہ سے ماخوذ) منظرعام پر آئیں۔

”فکشن، کلامیہ اور ثقافتی مکانیت“ فرخ ندیم کی کاوش ہے جو نئے تنقیدی فریم میں ادب کو دیکھنے کی کاوش ہے۔

حرف آخر

جہاں تک سوشل میڈیا کا تعلق ہے، جہاں اِسے کتاب کلچر کو نگلنے کا ملزم ٹھہرایا جا رہا ہے، وہیں اسی سوشل میڈیا کے مختلف فورمز اردو ادب کے فروغ کے لئے اپنا سود مند حصہ ڈال رہے ہیں، یہ اردو ادب کی نئی بستیاں ہیں، جہاں نیا لکھاری بھی پیدا ہوا رہا ہے اور قارئین بھی ۔ ہاں، لکھاری کنفیوز ہے کہ نہیں جانتا کہ اسے کیا لکھنا ہے، کہاں لکھنا ہے اور کہاں چھپنا ہے مگر اس کے سامنے امکانات کی وسیع تردنیا ہے۔

اِس منظر نامے پہ نگاہ دوڑائیں تو ایک اور دروزہ کھلتا ہے۔ اِک اور منظرنگاہوں کے سامنے ہے وہ یہ کہ تمام تر مسائل اور  کے باوجود ادب تخلیق ہو رہا ہے اور کتابیں سامنے آ رہی ہیں، ہاں اِک گھٹن زدہ اور انتشار کے شکار معاشرے کے ادیب کو دھند کے اِس بار نئے افق تلاش کرنے ہیں۔

کیا وہ ایسا کر پائے گا یہ سوال باقی رہے گا؟

Comments

- Advertisement -