چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان نے 22 مئی بروز پیر نیشنل کرائم ایجنسی 190 ملین پاؤنڈ منتقلی کیس میں قومی احتساب بیورو (نیب) کی تحقیقات کا حصہ بننے سے معذرت کرتے ہوئے 23 مئی کو رضا مندی ظاہر کر دی۔
نیب راولپنڈی کی جانب سے عمران خان کو 190 ملین پاؤنڈ منتقلی کیس کے سلسلے میں 22 مئی کو حاضری کا نوٹس جاری کیا جس کا انہوں نے تحریری جواب بھجوا دیا۔
سابق وزیر اعظم نے 22 مئی کو نیب تحقیقات کا حصہ بننے سے معذرت کی جبکہ 23 مئی کو تحقیقات کا حصہ بننے پر رضا مندی ظاہر کر دی۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ انکوائری رپورٹ کی نقل بھجوائی جائے یا پھر وکیل کو فراہم کی جائے۔
گزشتہ روز ذرائع نے اے آر وائی نیوز کو بتایا تھا کہ نیب راولپنڈی نے عمران خان کو 23 مئی کے روز دن 10 بجے طلب کیا۔ نیب کی دو رکنی ٹیم زمان پارک پہنچی اور نوٹس موصول کرانے کے بعد روانہ ہوگئی۔
اس سے قبل نیب راولپنڈی نے القادر ٹرسٹ کیس کا ٹائٹل تبدل کر کے عمران خان کو 18 مئی کے روز طلب کیا تھا مگر وہ پیش نہیں ہوئے تھے۔ اب القادر ٹرسٹ کیس کا ٹائٹل نیشنل کرائم ایجنسی 190 ملین پاؤنڈ منتقلی کیس ہے۔
9 مئی کو القادر ٹرسٹ کیس میں رینجرز نے عمران خان کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے احاطے سے نیب کی ہدایت پر گرفتار کیا تھا۔
ان کی گرفتاری کے بعد ملک کے مختلف شہروں میں پرتشدد مظاہرے پھوٹ پڑے تھے جن میں نجی و سرکاری املاک کو نقصان پہنچایا گیا۔ بعد ازاں قانون نافذ کرنے والے اداروں نے مظاہرین کے خلاف کریک ڈاؤن کیا جو اب تک جاری ہے۔
پی ٹی آئی کے سیکڑوں کارکنوں سمیت پارٹی کی مرکزی لیڈرشب شاہ محمود قریشی، اسد عمر، فواد چوہدری، شریں مزاری، علی محمد خان، شیریان آفریدی و دیگر زیرِ حراست ہیں۔
القادر ٹرسٹ کیس ہے کیا؟
نیب کے مطابق یہ مقدمہ القادر یونیورسٹی کیلیے زمین کے غیر قانونی حصول کا ہے، نیشنل کرائم ایجنسی یو کے کے ذریعے 190 ملین پاؤنڈ کی غیر قانونی وصولی سے فائدہ اٹھایا گیا، تفتیشی عمل کے دوران عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ کو کال اپ نوٹس جاری کیے گئے، یہ دونوں القادر ٹرسٹ کے ٹرسٹی ہیں۔
نیب کے مطابق سابق معاون خصوصی شہزاد اکبر کیس میں ملوث اور کلیدی کردار رہے، شہزاد اکبر اور عمران خان نے خفیہ معاہدے کی دستاویز چھپا کر کابینہ کو گمراہ کیا، 190 ملین پاؤنڈ کی رقم قومی خزانے میں جمع ہونا تھی، 190 ملین پاؤنڈ کو نجی سوسائٹی کے کیس میں ایڈجسٹ کیا گیا جسے سپریم کورٹ نے نمٹایا۔