تازہ ترین

وزیراعظم شہباز شریف ایک روزہ دورے پر کراچی پہنچ گئے

وزیراعظم شہباز شریف ایک روزہ دورے پر کراچی پہنچ...

ایران کے صدر ڈاکٹر ابراہیم رئیسی دورہ پاکستان مکمل کرکے واپس روانہ

کراچی: ایران کے صدر ڈاکٹر ابراہیم رئیسی دورہ پاکستان...

پاک ایران تجارتی معاہدے پر امریکا کا اہم بیان آگیا

واشنگٹن : نائب ترجمان امریکی محکمہ خارجہ کا کہنا...

کے4 منصوبے سے بھی ترستے کراچی کو پانی نہیں مل سکے گا

پانی کو ترستے کراچی کے شہریوں کو کے4 منصوبے...

ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کی کراچی آمد، مزار قائد پر حاضری

کراچی: پاکستان کے تین روزہ سرکاری دورے پر موجود...

سڑک‘ کُن اورہم‘ عمران کی شاعری

اردوشاعری کی ابتدا قلی قطب شاہ سے ملتی ہے اور تب سے آج تلک اس میں متعدد شعراء سخن آزمائی کرچکے ہیں اور ان میں سے ہی ایک نام عمران شمشاد ہے جس نے موجودہ اردو شاعری میں ایک نئے رجحان کو روشناس کرایا ہے۔

عمران شمشاد کے مجموعہ کلام کا نام ’عمران کی شاعری‘ ہے اوراس کی اشاعت کا اہتمام علی زبیر پبلیکشنز نےکیا ہے‘ کتاب میں صفحات کی کل تعداد  208روپے ہے اور اس کی قیمت 400 روپے مقرر کی گئی ہے۔

کتاب میں غزلوں اور نظموں کی کل تعداد 97 ہے اور عمران شمشاد اس کتاب کے پہلے صفحے پر درج نمائندہ شعر سے اپنے فکری مزاج کا پتہ دے رہے ہیں کہ ’عمران کی شاعری‘ پڑھنا آسان ثابت نہیں ہوگا۔

پھول کو دھول کی ضرورت ہے
اس قدر دیکھ بھال ٹھیک نہیں

کتاب کا کاغذ معیاری ہے اوراس کے سرورق کو انعام گبول اور طحہٰ صدیقی نے رنگوں سے زبان دی ہے۔

imran-post-2

عمران کی شاعری کے بارے میں

عمران شمشماد اسلوب کے اعتبار سے ایک نئے شاعر ہیں اور نئے سے مراد یہاں نووآرد نہیں بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کتاب میں روایت سے ہٹ کرشاعری کہی گئی ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ عمران شعریات کی دنیا میں کچھ نیا کرنا چاہتے ہیں اور اس معاملے میں وہ نتائج سے خوفزدہ دکھائی نہیں دیے کہ آیا اسے شرفِ قبولیت بھی حاصل ہوگا کہ نہیں! بس وہ کرگزرے ہیں۔

دیکھیں ! عمران کتاب کی ابتدا میں کس طرح حمد کی عمومی روایت سے انحراف کرتے نظرآتے ہیں۔

میرا مالک میری مشکل
آسانی سے حل کردے گا

کُن کے عنوان سے عمران نے اس کتاب میں نعتیہ نظم تحریر کی ہے جس میں عمران نے آخری مصرعے میں آشکار کیا ہے کہ یہ نعتیہ کلام ہے۔

کُن خدا کا اگرارادہ ہے
اس ارادے کی ابتدا کیا ہے
کون اس کا جواب دے گا مجھے
کُن محمد ﷺ کے ماسوا کیا ہے

عمران کے ہاں مستعمل زبان انتہائی آسان اور عام فہم ہے اور بہت حد تک اسے عامیانہ بھی کہا جاتا ہے لیکن میں سمجھتا ہوں کہ ان کے ہاں رائج لسانی سہولیات انہیں آنے والے وقتوں میں ایسا شاعربنادے گی جسے عوام میں مقبولیت حاصل ہوگی۔

سڑک

مشاعروں میں اکثر عمران شمشاد سے فرمائش کی جاتی ہے کہ اپنی نظم ’سڑک‘ سنائیں۔ اس کتاب میں یہ نظم شامل ہے اور اس میں لفظیات کا جس قدرخوبصورتی سے استعمال کیا گیا ہے اور خیالات کے بہاؤ کو درست سمت دی گئی ہے وہ قابلِ تعریف ہے۔ نجانے کیوں مجھے اس نظم کو پڑھتے ہوئے نظیر اکبر آبادی کا ’آدمی نامہ‘ یاد آرہا تھا۔ میرا خیال ہے کہ اگر سڑک کو جدید دور کا آدمی نامہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔

صغیر قد سے ابھر رہا ہے
کبیر حد سے گزر رہا ہے

امین کنڈا لگا رہا ہے
نظام تانگا چلا رہا ہے

کسی کی ہاتھی نما پراڈو
سڑک سے ایسے گزر رہی ہے

نواب رکشا چلا رہا ہے
اور ایک واعظ بتا رہا ہے
خدا کو ناراض کرنے والے جہنمی ہیں
خداکو راضی کروخدارا

اور یہ دیکھیں کہ

نئے مسافرابھررہے ہیں
سڑک جہاں تھی وہیں کھڑی ہے
مگر حقیقت بہت بڑی ہے
سڑک پہ بلی مری پڑی ہے

عمران شمشاد کی ایک اور نظم ’سودی بیگم کا جائزہ لیتے ہیں جس میں شاعر معاشرے میں رائج معاشی نظام کو بیان کررہے ہیں اوراسے پڑھتے ہوئے ایسے محسوس ہوتا ہے کہ جیسے کسی چوبارے پر دو خواتین کے بارے میں گفتگو ہورہی ہے لیکن ایک عامیانہ سے جملے کو استعمال کرکے عمران سودی نظام کی بہت بڑی حقیقت کو اپنے قاری پر آشکار کردیتے ہیں۔

بینک میں پہلا قدم رکھا تو اس کی چپل
موٹے سے قالین میں دھنس گئی
رضیہ پھر غنڈوں میں پھنس گئی

نظم کی طرح عمران کی غزل بھی قاری کو چیلنج کرتی نظر آتی ہے اور کتاب میں موجود غزلیں قاری کو اکساتی ہیں کہ وہ اسے مزید پڑھیں۔

کچھ نہ کچھ تو ہے مشترک عمران
روح میں روشنی میں پانی میں

آدمی آدمی کی دیواریں
آدمی آدمی کا دروازہ

چکنی چپڑی جوبات کرتا ہے
پیرچھوتا ہے ہات کرتا ہے

imran-post-1

کتاب کی پشت پر عمران رقم دراز ہییں کہ ’’میری پیشانی دیکھنے والےیہ لکیریں نہیں‘ وہ رستے ہیں میں جہاں سے گزر کے آیا ہوں‘‘۔ یقیناً اس قسم کی اچھوتی شاعری کے لیے عمران نے کئی دشوار منزلیں طے کی ہوں گی اور یہ مشکل منزلیں انہوں نے اپنے لیے خود منتخب کی ہیں۔ امید ہے کہ ان کی یہ محنتیں رائیگاں نہیں جائیں گی اور آج نہیں تو کل ان کے اس منفرد انداز کو تسلیم کیا جائے گا۔

شاعر کے بارے میں

جیسا کہ کتاب کے نام سے واضح ہے ‘ اس کے مصںف عمران شمشاد ہیں جو کہ اے آروائی نیوز کے پروڈکشن ڈیپارٹمنٹ سے اسکرپٹ ہیڈ کی حیثیت سے وابستہ ہیں۔

عمران شمشاد نے دوسو سے زائد ڈاکیومنٹریز لکھی ہیں اور مختلف ٹی وی چینلز کے لیے ڈرامے لکھنے کا سلسلہ بھی جاری ہے۔

شاعراقرا یونی ورسٹی میں گزشتہ چار سال سے زائد عرصے سے میڈیا سائنسز کے طلبہ و طالبات کو اسکرپٹ رائٹنگ کا فن سکھا رہے ہیں۔ ان کے آئندہ منصوبوں میں ایک ناول اورافسانوں کا مجموعہ شامل ہیں جبکہ اردو شاعری کی ایک اورکتاب پر کام بھی جاری ہے۔

Comments

- Advertisement -
فواد رضا
فواد رضا
سید فواد رضا اے آروائی نیوز کی آن لائن ڈیسک پر نیوز ایڈیٹر کے فرائض انجام دے رہے ہیں‘ انہوں نے جامعہ کراچی کے شعبہ تاریخ سے بی ایس کیا ہے اور ملک کی سیاسی اور سماجی صورتحال پرتنقیدی نظر رکھتے ہیں