تازہ ترین

کاروباری شخصیت کی وزیراعظم کو بانی پی ٹی آئی سے ہاتھ ملانے کی تجویز

کراچی: وزیراعظم شہباز شریف کو کاروباری شخصیت عارف حبیب...

وزیراعظم شہباز شریف کی مزار قائد پر حاضری

وزیراعظم شہباز شریف ایک روزہ دورے پر کراچی پہنچ...

ایران کے صدر ڈاکٹر ابراہیم رئیسی دورہ پاکستان مکمل کرکے واپس روانہ

کراچی: ایران کے صدر ڈاکٹر ابراہیم رئیسی دورہ پاکستان...

پاک ایران تجارتی معاہدے پر امریکا کا اہم بیان آگیا

واشنگٹن : نائب ترجمان امریکی محکمہ خارجہ کا کہنا...

تحریکِ پاکستان: کانگریس کی سیاست اور نہرو رپورٹ نے قائدِاعظم کو راستہ بدلنے پر مجبور کیا

انیسویں اور بیسویں صدی میں بہت سی سیاسی و علمی تحاریک سامنے آئیں جنھوں نے ہندوستان میں بھی سیاست و سماج اور علم و ادب کے میدان میں نئے رجحانات اور تبدیلیوں کو جنم دیا۔

انگلستان جو اس وقت بڑا علمی مرکز تھا، اس کی لبرل تحریک نے تقریباً تمام دنیا، خاص طور پر نوآبادیات میں اشرافیہ کو ضرور متاثر کیا تھا۔ برطانوی ہند( برٹش انڈیا) کے لوگ بالخصوص جب مغرب سے تعلیم حاصل کرکے واپس اپنے وطن آتے تو بہت سے نئے رجحان اور افکار بھی یہاں ان کے ذریعے پہنچتے تھے۔

انڈین نیشنل کانگریس بھی انہی لبرل تصورات کی بنیاد پر سیاسی شعور کی مظہر ایک جماعت تھی۔ اس کی بنیاد ایک ریٹائرڈ برطانوی افسر اے او ہیوم نے 1885ء میں رکھی تھی۔ اس کی قومی وضع، انفرادی آزادی کے تصوّرات اور ہندوستان کے لیے اس پلیٹ فارم تلے جمع ہوکر کام کرنے کے عزم نے اشرافیہ اور مختلف گروہوں کے تعلیم یافتہ، باشعور اور ممتاز ہندوستانیوں کو اس میں شامل ہونے پر آمادہ کرلیا۔

مغرب سے تعلیم یافتہ اور جدید و لبرل تصوّرات کے حامل محمد علی جناح نے بھی انڈین نیشنل کانگریس میں شمولیت اختیار کرلی۔ وہ انڈین نیشنل کانگریس کے معتمدین بدرالدین طیّب جی، دادا بھائی نارو جی، سر فیروز شاہ مہتا اور گوپال کرشنا گوکھلے کے بہت قریب تھے۔

ہندوستان کے مسلمانوں کو انڈین نیشنل کانگریس پر کچھ تحفظات تھے اور وہ بہت کم اِس میں شامل ہوئے اور بعد میں جب تقسیمِ بنگال کا مسئلہ اٹھا تو انڈین نیشنل کانگریس نے ایسا سخت اور مسلم مخالف رویہ اپنایا کہ اس سے ایک ہندو نظریات کی پرچارک جماعت کا تاثر قائم ہوا۔ یہ وہ وقت تھا جب مسلم اشرافیہ اپنی ہندوستانی سیاست کے مستقبل پر الجھی ہوئی تھی اور ہندو مسلم اتحاد کی کوششیں بے سود نظر آرہی تھیں۔ دوسری جانب سیاسی میدان میں مسلمانوں کو اپنی نمائندگی اور حقوق پورے ہونے کی بھی فکر تھی اور لگتا تھاکہ ہندو انھیں‌ پیچھے رکھنا چاہتے ہیں، تب 1906ء میں آل انڈیا مسلم لیگ کی بنیاد رکھی گئی ۔

ادھر محمد علی جناح مسلم لیگ کے قیام کے فوراً بعد اس میں شامل نہ ہوئے۔ وہ انڈین نیشنل کانگریس سے بددل تو ہورہے تھے، لیکن اسے ایک بڑی اور ایسی پارٹی سمجھتے تھے جو برٹش انڈیا کی تمام جماعتوں کی نمائندہ تھی۔ لیکن جلد ہی انھیں احساس ہوگیا کہ مسلمانوں کے حقوق کے لیے کانگریس کے پلیٹ فارم سے نہیں لڑا جاسکتا اور انھوں نے مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کرنے کے بعد اس کی قیادت سنبھالی۔

محمد علی جناح نے دیکھا کہ انڈین نیشنل کانگریس کے افکار و نظریات پر موہن داس کرم چند گاندھی کی شخصیت اور سیاسی خیالات کا اثر گہرا ہورہا ہے انھوں نے 1920ء میں کانگریس کی رکنیت سے استعفیٰ دے دیا۔ محمد علی جناح ایک قوم پرست ہندوستانی تھے اور کانگریس کو بلاامتیازِ رنگ و نسل اور مذہب عوام کی نمائندہ اور حقیقی جماعت سمجھتے تھے، لیکن متعصب اور انتہا پسند ہندو قائدین کے طرزِعمل اور پارٹی کے بعض فیصلوں نے ان کے خیالات تبدیل کردیے تھے۔

ادھر مسلمانوں کی قیادت نے قائداعظم کو اس بات پر قائل اور آمادہ کرنے کی کوششیں جاری رکھی ہوئی تھیں کہ ہندوستانی مسلمانوں کی سیاسی بقا اور حقوق کا تحفظ اسی صورت ممکن ہے جب وہ مسلم لیگ جیسی جماعت کے جھنڈے تلے جمع ہوں اور بعد میں‌ ثابت ہوا کہ زعمائے وقت کا کہنا ٹھیک تھا۔ وہ وقت بھی آیا جب محمد علی جناح نے ’’گاندھی زدہ‘‘ کانگریس چھوڑ کر اس عظیم جدوجہد اور تحریک کے قائد بنے جس نے پاکستان کا خواب پورا کیا۔

قائدِ اعظم نے جو کانگریس چھوڑی اس کی تنظیم اس منشور اور مقصد سے بالکل مختلف تھی جس کے لیے انھوں نے اس جماعت میں‌ شمولیت اختیار کی تھی۔

1910ء کے عشرے میں قائدِ اعظم انڈین نیشنل کانگریس کی ایک معروف شخصیت تھے۔ 1908ء سے 1920ء تک وہ باقاعدگی سے انڈین نیشنل کانگریس کمیٹی کے رکن منتخب ہوتے رہے۔ انھوں نے کانگریس کے مختلف اجلاسوں میں کئی اہم قرادادیں پیش کیں یا ان کی تائید کی اور کانگریس کو کئی سال تک باقاعدگی سے ماہانہ فنڈ دیتے رہے۔

کانگریس کو چھوڑ کر مسلم لیگ کو فعال کرنے والے محمد علی جناح نے 1929ء کی نہرو رپورٹ کے بعد اپنی سیاست کا رُخ مکمل طور پر مسلم قوم پرستی کی طرف موڑ لیا، وہ برٹش انڈیا میں مسلمانوں کے واحد اور متفقہ قائد کے طور پر ابھر کر سامنے آئے اور ان کی سیاسی بصیرت نے مسلمانوں کی جدوجہد کو اگست 1947ء میں قیامِ پاکستان کی صورت میں منزل تک پہنچایا۔

Comments

- Advertisement -