تازہ ترین

وزیراعظم شہبازشریف کو امریکی صدر جو بائیڈن کا خط، نیک تمناؤں کا اظہار

واشنگٹن: امریکی صدر جو بائیڈن نے وزیر اعظم شہباز...

بابر اعظم کو دوبارہ قومی ٹیم کا کپتان بنانے کا فیصلہ ہو گیا

پاکستان کرکٹ بورڈ نے بابر اعظم کو ایک بار...

چین پاکستان معاہدوں کے حوالے سے آئی ایم ایف کا اہم بیان

عالمی مالیاتی ادارے کا کہنا ہے کہ چین پاکستان...

جون تک پی آئی اے کی نجکاری کا عمل مکمل کرلیا جائے گا، وفاقی وزیر خزانہ

کراچی : وزیرخزانہ محمداورنگزیب کا کہنا ہے کہ پی...

حبیب جالب کی’’دستور‘‘ سے مودی کے دستور کو للکارتے بھارتی

سیاسی جبر کے مخالف، مساوات کے پرچارک اور انصاف کے متوالے حبیب جالب کے انقلابی ترانے ہندوستان میں گلی گلی گونج رہے ہیں۔

جالب کی نظموں کے اشعار نعروں کی صورت مودی سرکار کو للکار رہے ہیں۔ بھارتی شہریت کے متنازع قانون کے خلاف احتجاج اور مظاہروں کے دوران خاص طور پر نوجوانوں نے پاکستان کے اس عظیم انقلابی شاعر کی مشہور ترین نظم دستور کو اپنا نعرہ اور پرچم بنا لیا ہے۔

حبیب جالب نے ظلم، زیادتی اور ناانصافی کے خلاف جو ترانے لکھے، وہ مقبول ہوئے۔ جو شعر کہا وہ زبان زدِ عام ہوا۔ کسی دور میں مصلحت سے کام نہ لینے والے حبیب جالب ہر مظلوم کے دل کی آواز بنے رہے۔ یہی وجہ ہے کہ دورِ آمریت اور سیاسی جبر کے خلاف بات کریں، طبقاتی نظام سے لڑنا ہو یا کروڑوں عوام کے حق کے لیے آواز اٹھانی ہو، آج بھی حبیب جالب کے ترانے اور ان کے اشعار کا سہارا لیا جاتا ہے۔

مودی کے جنون کی نذر ہوتے بھارت اور ہندتوا کی آگ میں جلتے ہندوستانی معاشرے کے سنجیدہ، باشعور، نڈر اور بے باک عوام شاعرِ انقلاب کی مشہور نظم ‘‘دستور’’ سے حق و انصاف کا الاؤ بھڑکاتے ہوئے سڑکوں پر نظر آرہے ہیں۔ اجتماعات کے دوران حبیب جالب کی نظمیں‌ پڑھی جارہی ہیں اور بینروں‌ پر ان کے اشعار لکھے ہوئے ہیں۔

گزشتہ دنوں‌ ایک تصویر دنیا کے سامنے آئی جس میں‌ بھارتی لڑکی نے بینر اوڑھا ہوا ہے جو جالب کی مشہور نظم دستور کے اشعار سے سجا ہوا ہے۔

دیپ جس کا محلات ہی میں جلے
چند لوگوں کی خوشیوں کو لے کر چلے
وہ جو سائے میں ہر مصلحت کے پلے

ایسے دستور کو صبحِ بے نور کو
میں نہیں مانتا، میں نہیں جانتا

میں بھی خائف نہیں تختۂ دار سے
میں بھی منصور ہوں، کہہ دو اغیار سے
کیوں ڈراتے ہو زنداں کی دیوار سے

ظلم کی بات کو، جہل کی رات کو
میں نہیں مانتا، میں نہیں جانتا

تم نے لوٹا ہے صدیوں ہمارا سکوں
اب نہ ہم پر چلے گا تمہارا فسوں
چارہ گر دردمندوں کے بنتے ہو کیوں

تم نہیں چارہ گر، کوئی مانے مگر
میں نہیں مانتا، میں نہیں جانتا!

Comments

- Advertisement -