تازہ ترین

کچے کے ڈاکوؤں کو اسلحہ فراہم کرنیوالے 3 پولیس افسران سمیت 7 گرفتار

کراچی : پولیس موبائل میں جدید اسلحہ سندھ اسمگل...

پاکستان کو آئی ایم ایف سے 6 ارب ڈالر قرض پروگرام کی توقع

وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ...

اسرائیل کا ایران پر فضائی حملہ

امریکی میڈیا کی جانب سے یہ دعویٰ سامنے آرہا...

‘اگر زیادتی کا شکار ہونا ناگزیر ہو جائے تو’ … بھارتی سیاست دان نے حد کر دی

نئی دہلی: ایک طرف بھارت میں خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات وبا کی طرح پھیلے ہوئے ہیں، دوسری طرف آئے روز سیاست دانوں کی جانب سے ریپ سے متعلق انتہائی بے حسی پر مبنی بیانات سامنے آتے رہتے ہیں۔

تازہ ترین واقعہ بھارت کی جنوبی ریاست کرناٹک کا ہے، جہاں رکن اسمبلی اور سابق اسپیکر کے آر رمیش کمار نے جمعرات کے روز ریپ کے حوالے سے متنازعہ بیان دے دیا۔

کرناٹک اسمبلی میں ایک بحث میں حصہ لیتے ہوئے کانگریس کے رکن رمیش کمار نے کہا ‘لوگ کہتے ہیں کہ اگرریپ ہونا ناگزیر محسوس ہوتو آرام سے لیٹ جانا اور اس سے لطف اندوز ہونا چاہیے۔’

بیان تو تھا ہی افسوس ناک تاہم اس کے بعد ایک اور افسوس ناک واقعہ پیش آ گیا، اس بیان پر اسمبلی کے اسپیکر نے کوئی اعتراض نہیں کیا بلکہ ہنستے رہے، اور دیگر اراکین بھی بیان سے محظوظ ہوتے دکھائی دیے۔

جب سوشل میڈیا پر رمیش کمار کے خلاف سخت رد عمل سامنے آیا، متعدد خواتین تنظیموں اور خواتین سیاست دانوں نے بھی اس پر سخت اعتراض کیا، تو رمیش کمار نے جمعے کے روز اسمبلی میں اپنے بیان پر معذرت کی، اور اس کے بعد ہی کانگریس پارٹی نے بھی بیان پر ناراضی کا اظہار کیا۔

تاہم بھارت میں پیش آنے والا یہ کوئی پہلا موقع نہیں ہے، ماضی میں متعدد اہم سیاست دان خواتین اور بالخصوص ریپ کی متاثرین کے لیے بے حسی کا اظہار کر چکے ہیں۔

اس حوالے سے سب سے ‘مشہور’ بیان سابق وزیر دفاع اور سماج وادی پارٹی کے سربراہ ملائم سنگھ یادو کا ہے، جنھوں نے ریپ کے لیے سزائے موت کی مخالفت کرتے ہوئے 2014 میں کہا تھا، ‘لڑکے ہیں، غلطی ہو جاتی ہے، لڑکیاں پہلے دوستی کرتی ہیں، اختلاف ہو جاتا ہے، تو اسے ریپ کا نام دے دیتی ہیں۔’

ہریانہ کے سابق وزیر اعلیٰ اوم پرکاش چوٹالا نے لڑکیوں کو ریپ سے بچانے کے لیے ان کی شادی 16 برس میں ہی کر دینے کا مشورہ دیا تھا اور کہا تھا، ‘لوگ مغلوں کی زیادتی سے اپنی بیٹیوں کو بچانے کے لیے کم عمر میں شادی کر دیتے تھے، ریاست میں بھی یہی صورت حال پیدا ہوگئی ہے۔’

Comments

- Advertisement -