تازہ ترین

ایرانی صدر کی مزار اقبال پر حاضری، پھول چڑھائے اور فاتحہ خوانی کی

لاہور: ایران کے صدر ابراہیم رئیسی کی لاہور آمد...

پاک ایران سرحد پر باہمی رابطے مضبوط کرنے کی ضرورت ہے، آرمی چیف

راولپنڈی: آرمی چیف جنرل عاصم منیر کا کہنا ہے...

پی ٹی آئی دورِحکومت کی کابینہ ارکان کے نام ای سی ایل سے خارج

وفاقی حکومت نے پی ٹی آئی دورِحکومت کی وفاقی...

بھارتی فلم انڈسٹری کو تاریخ کے سب سے بڑے بحران کا سامنا

بھارتی فلم انڈسٹری بالی ووڈ اب تک کے سب سے بڑے بحران کا سامنا کررہی ہے۔

ایک ارب 40 کروڑ لوگوں کے ملک کی ثقافت کا ایک ناگزیر حصہ بننے والی بالی ووڈ فلم انڈسٹری اب تک کے سب سے بڑے بحران کا سامنا کر رہی ہے کیوں کہ انٹرنیٹ پر اسٹریمنگ سروسز اور غیر ہندی زبانوں کی فلم انڈسٹریوں نے اس کی چکاچوند کو ماند کر دیا ہے۔

جنوبی ایشیا کی یہ فلم انڈسٹری ہر سال تقریباً 16 سو فلمیں تیار کرتی ہے جو کسی بھی دوسرے ملک سے زیادہ ہے ان کی فلموں کا ذکر نہ صرف روایتی میڈیا کی سرخی ہوتی ہے، بلکہ شائقین دیوتاؤں کی طرح فلمی ستاروں کی پوجا کرتے ہیں اور پریمیئرز میں لوگوں کا ہجوم ہوتا ہے۔

لیکن اب سنیما گھروں میں خاموش چھائی ہوئی ہے، یہاں تک کہ بالی ووڈ کے مرکز ممبئی میں بھی عالمی وبا کے بعد باکس آفس میں صورت حال معمول کے مطابق دکھائی نہیں دے رہے ہیں۔

ممبئی کے تجربہ کار تھیٹر کے مالک منوج دیسائی نے بتایا کہ یہ بالی ووڈ کے اب تک کا بدترین بحران ہے، کچھ اسکریننگ اس لیے منسوخ کرنا پڑی کیونکہ وہاں شائقین موجود نہں تھے۔

بالی ووڈ کو کامیاب ترین فلم دینے والے اکشے کمار کی تین فلمیں اور عامر خان کی لال سنگھ چڈھا دونوں اپنے مداحوں کو اپنی فلموں کی طرف راغب کرنے میں ناکام رہے ہیں۔

ایلارا کیپیٹل کے میڈیا تجزیہ کار کرن تورانی نے کہا کہ گزشتہ سال ریلیز ہونے والی بالی ووڈ کی 50 سے زیادہ فلمیں وبائی امراض کی وجہ سے صرف ایک پانچواں حصہ آمدنی کرسکی جب کہ کورونا وبا سے پہلے یہ 50 فیصد تھی۔

اس کے برعکس، تیلگو زبان عرف ٹالی ووڈ فلمیں ہندی زبان کی بالی ووڈ کی جنوبی ہند کی مدمقابل سرفہرست رہی ہے۔
اسٹیٹ بینک آف انڈیا کے چیف اقتصادی مشیر سومیا کانتی گھوش نے ایک حالیہ رپورٹ میں کہا کہ جنوری 2021 سے اس سال اگست تک ہندی زبان جنوبی بھارت کی ڈبنگ فلموں نے باکس آفس کی 50 فیصد کمائی اپنے نام کی تھی۔

سومیا کانتی گھوش کا کہنا تھا کہ ایسا لگتا ہے بالی ووڈ دہائیوں تک کہانیاں سنانے کے بعد اب ایسے موڑ پر ہے، جس کا اسے پہلے سامنا نہیں کرنا پڑا تھا۔

بالی ووڈ، دیگر فلم انڈسٹری کی طرح اسٹریمنگ کے عروج سے متاثر ہوا ہے، جو وبائی امراض سے پہلے شروع ہوا تھا لیکن اسے عروج اس وقت ملی جب لاکھوں بھارتیوں کو لاک ڈاؤن کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

حکومتی اندازے کے مطابق بھارت کی تقریباً نصف آبادی کو انٹرنیٹ اور اسٹریمنگ سروسز تک رسائی حاصل ہے، جس میں بین الاقوامی سروسز نیٹ فلکس، ایمیزون پرائم، اور ڈزنی ہاٹ اسٹار کے پاس 96 ملین سبسکرپشنز بھی شامل ہیں۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ لاک ڈاؤن کے دوران ریلیز ہونے والی کچھ فلموں نے ان پلیٹ فارمز کا رخ کیا، جب کہ دیگر تھیٹروں میں ڈیبیو کرنے کے چند ہفتوں بعد چھوٹی اسکرینوں پر آگئی تھی۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اسٹریمنگ سروسز کی ماہانہ سبسکرپشن ایک ٹکٹ کی قیمت سے کم یا اس کے برابر ہے، سنگل اسکرین سنیما میں 100 سے 200 روپے جب کہ ملٹی پلیکس میں اس سے زیادہ کا ٹکٹ ہے اور قیمت کے معاملے میں حساس فلم بین تھیٹر جانے سے گریز کر رہے تھے۔

وقت اتنا مشکل تھا کہ بھارت کے دو بڑے ملٹی پلیکس آپریٹرز ‘آئی این او ایکس’ اور ‘پی وی آر’ نے رواں برس مارچ میں انضمام کا اعلان کیا ۔

اس دوران سبسکرائبرز کو مقامی اور عالمی اسٹریمنگ مواد کے سامنے لایا گیا، جس میں بشمول جنوبی تیلگو، تامل، ملیالم، اور کنڑ زبان کی فلمیں جن میں پہلے سے ہی مقامی شائقین کے مداح موجود تھے۔

فلم ناقد راجا سین کے مطابق ’’علاقائی سنیما اپنی حدوں سے آگے نہیں بڑھ رہا تھا، لیکن پھر اچانک ہر کوئی ملیالم سنیما یا مہاراشٹری سنیما دیکھنے لگے اور پھر آپ کو احساس ہوا کہ ایسے فلم ساز ہیں جو زیادہ دلچسپ کہانیاں سنا رہے ہیں۔

راجا سین کہتے ہیں کہ شائقین بار بار ہندی بلاک بسٹر فلم میں ایک ایسے اسٹار کو دیکھتے ہیں، جو بالکل اسی کہانی کی طرح ہوتی ہے جو وہ پہلے بھی لاکھوں مرتبہ دیکھ چکے ہوتے ہیں، لہٰذا اب وہ اس سے اتنے متاثر نہیں ہوتے۔

ناقدین نے بالی ووڈ پر اشرافیہ کی فلمیں بنانے کا الزام بھی لگایا جو ایسے ملک میں اپنی گونج پیدا نہیں کرتیں جہاں 70 فی صد آبادی شہروں سے باہر رہتی ہے۔

عامر خان نے فلم ’لال سنگھ چھڈا‘ کے لیے لیے میڈیا انٹرویوز کے دوران اعتراف کیا کہ ہندی فلم سازوں کے لیے جو چیز اہم ہے، شاید بڑی تعداد میں فلم بینوں کے لیے اتنی اہم نہیں ہے۔

وہیں ٹالی وڈ کی سپر ہٹ فلمیں ‘پشپا دی رائز’ اور ‘آر آر آر’ نےعام آدمی کی بہادری کو اجاگر کیا اور دلکش گانوں اور ڈانس کے ساتھ شائقین کو اپنے طرف متوجہ کیا۔

اس طرح کے فارمولے طویل عرصے سے بالی ووڈ کا مرکزی مقام رہے ہیں لیکن فلمی ناقدین کا کہنا ہے کہ جنوبی چیلنجرز اسے بڑا اور بہتر کر رہے تھے۔

Comments

- Advertisement -