تازہ ترین

سخت گیر پادری کا بیٹا جسے سنیما کی تاریخ میں اہم شخصیت تسلیم کیا گیا

سنیما کی تاریخ کے چند بہترین ہدایت کاروں میں ایک نام انگمار برگمین کا بھی شامل ہے۔ سوئیڈن کے اس عالمی شہرت یافتہ ہدایت کار نے ’کرائم اینڈ وسپرز‘، ’دی سیونتھ سیل‘ اور ’وائلڈ سٹرابری‘ جیسی شاہ کار تفریحی فلمیں تخلیق کیں‌ اور کئی دستاویزی فلموں‌ کے علاوہ اسٹیج اور ریڈیو کے لیے بھی ہدایت کار کی حیثیت سے منفرد کام کیا۔

14 جولائی 1918 کو دنیا میں آنکھ کھولنے والے انگمار برگمین کے والد ایرک برگمین ایک سخت مزاج اور قدامت پرست شخص تھے اور شاہی دربار سے وابستہ پادری تھے۔ یوں گھر میں مذہبی تعلیمات کا اثر تھا۔ والدہ پیشے کے اعتبار سے نرس تھیں۔ انگمار کے مطابق والد کا خوف ایسا تھا کہ ان کی حکم عدولی تو درکنار، ان کے کسی اصول کو توڑنا یا مزاج کے برعکس کچھ کرنے کا تصور تک نہیں کیا جاسکتا تھا، لیکن انگمار نے اس ماحول اور والد کی خواہش کے برخلاف الگ ہی راستہ چنا۔ وہ اپنی خود نوشت The Magic Lantern میں لکھتے ہیں: چرچ میں اُن (والد) کی مصروفیت کے دوران گھر میں کچھ گایا اور سُنا جاسکتا تھا۔

برگمین کی بیش تر فلموں کا موضوع عام حالات اور ازدواجی زندگی کے نشیب و فراز، محرومیاں اور مذہب رہا۔ یہاں Winter Light کا ذکر ضروری ہے، جو 1962 میں سنیما پر پیش کی گئی۔ اس کا اسکرپٹ اور ڈائریکشن برگمین نے دی تھی اور یہ دیہی علاقے کے ایک گرجا اور پادری کی کہانی تھی، جسے مذہب سے متعلق سوالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ برگمین بھی نوعمری میں‌ من مانی مذہبی تشریح پر سوال اٹھانے لگے تھے اور وہ وقت آیا کہ 1937 میں انھیں اسٹاک ہوم یونیورسٹی میں آرٹ اور لٹریچر کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے داخل کرا دیا گیا۔ تھیٹر اور فلم ان کا محبوب موضوع تھا۔ اسی زمانے میں‌ اسٹیج ڈراموں کے اسکرپٹس لکھنے کا سلسلہ شروع ہوا اور 1942 انھیں تھیٹر اور بعد ازاں اسسٹنٹ فلم ڈائریکٹر کی حیثیت سے کام کرنے کا موقع ملا۔ اگلے برس، یعنی 1943 میں ان کی زندگی میں‌ ایلس میری فشر رفیقِ حیات بن کر شامل ہوئی مگر 1946 میں ان کے درمیان علیحدگی ہوگئی۔ برگمین نے پانچ شادیاں کیں جن میں‌ سے چار ناکام رہیں۔

1944 میں برگمین کا پہلا اسکرین پلے Torment سامنے آیا۔ یہ انسان کے جنون اور ایک قتل کی کہانی تھی، جسے بعد میں امریکا اور لندن میں بھی مختلف ٹائٹل کے ساتھ پیش کیا گیا۔ بعد کے برسوں‌ میں‌ انھوں‌ نے درجنوں فلموں کے اسکرپٹ تحریر کرنے کے ساتھ ہدایت کاری بھی کی۔ 1955 میں Smiles of a Summer Night سامنے آئے جس کے وہ ہدایت کار تھے۔ یہ کامیڈی فلم کانز کے میلے تک پہنچی تھی۔ اس کے فوراً بعد سیونتھ سیل نے برگمین کو خصوصی انعام دلوایا اور ایک مرتبہ پھر وہ کانز کے میلے تک پہنچے۔

1960 کی ابتدا میں برگمین نے اپنے اسکرپٹس میں مذہب کو موضوع بنانا شروع کردیا۔ اس ضمن میں تین فلموں کا تذکرہ کیا جاتا ہے، جن کے ہدایت کار برگمین ہی تھے۔ یہ فلمیں خدا، انسان کے کسی نادیدہ ہستی پر یقین اور اس حوالے سے شکوک و شبہات پر مبنی تھیں۔

1976 میں انگمار برگمین نے ایک بدسلوکی پر بددل ہوکر سوئیڈن چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔ انھیں ٹیکس فراڈ کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا تھا جو بعد میں‌ جھوٹا ثابت ہوا اور متعلقہ اداروں نے اسے غلطی قرار دے کر انگمار سے معذرت کی۔ لیکن انھوں‌ نے اپنا فلم اسٹوڈیو بند کیا اور خود ساختہ جلاوطنی اختیار کر لی۔ وہ امریکا میں مختلف پروڈکشن ہاؤسز کے ساتھ کام کرتے رہے۔ 1982 میں وہ فلم Fanny and Alexander کی ڈائریکشن کے لیے سوئیڈن آئے اور پھر آنا جانا لگا ہی رہا۔ اسے بہترین غیرملکی فلم کے زمرے میں آسکر سے نوازا گیا تھا۔

30 جولائی 2007 کو انگمار برگمین نے ہمیشہ کے لیے آنکھیں موند لی تھیں۔ انفرادی طور پر نو مرتبہ اکیڈمی ایوارڈ کے لیے نام زدگی اور تین بار ان کی فلموں کو اکیڈمی ایوارڈ سے نوازا گیا۔ ہالی وڈ نے 1970ء ہی میں انگمار کو آسکر ایوارڈ دے کر سنیما کی تاریخ کی اہم ترین شخصیت مان لیا تھا۔ اس کے علاوہ برٹش اکیڈمی آف فلم اینڈ ٹیلی ویژن آرٹس، بافٹا ایوارڈ اور گولڈن گلوب ایوارڈ بھی ان کے حصّے میں‌ آئے۔ 1997ء میں کانز کے فلمی میلے میں برگمین کو ’پام آف دا پامز‘ ایوارڈ دیا گیا تھا۔

Comments

- Advertisement -