تازہ ترین

روس نے فلسطین کو اقوام متحدہ کی مکمل رکنیت دینے کی حمایت کردی

اقوام متحدہ سلامتی کونسل کا غزہ کی صورتحال کے...

بیوٹی پارلرز اور شادی ہالز پر فکس ٹیکس لگانے کا فیصلہ

پشاور: خیبرپختونخوا حکومت نے بیوٹی پارلرز اور شادی ہالز...

چمن میں طوفانی بارش، ڈیم ٹوٹ گیا، مختلف حادثات میں 7 افراد جاں بحق

چمن: بلوچستان کے ضلع چمن میں طوفانی بارشوں نے...

ملک کو آگے لے جانے کیلیے تقسیم ختم کرنا ہوگی، صدر مملکت

اسلام آباد: صدر مملکت آصف علی زرداری کا کہنا...

ڈی آئی خان میں نامعلوم افراد کی فائرنگ سے 4 کسٹمز اہلکار شہید

ڈی آئی خان میں نامعلوم افراد کی فائرنگ سے...

معذور کر دینے والے اعصابی مرض کے لیے سندھ میں انجکشن فراہمی کا معاہدہ رک گیا

کراچی: معذور کر دینے والے اعصابی مرض ملٹی پل اسکلروسیس کے علاج کے لیے حکومت سندھ کے ساتھ ہونے والا معاہدہ رک گیا ہے، انجکشن فراہمی شروع نہیں ہو سکی۔

تفصیلات کے مطابق پاکستان سمیت دنیا بھر میں آج ملٹی پل اسکلروسیس کا دن منایا جا رہا ہے، آغا خان اسپتال میں نیورولوجی اویرنس اینڈ ریسرچ فاؤنڈیشن کے تحت اس سلسلے میں ایک سیمینار کا انعقاد کیا گیا۔

دماغی و اعصابی بیماریوں کے ماہرین نے کہا کہ دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی اعصابی مرض ملٹی پل اسکلروسیس کی شرح میں اضافہ ہو رہا ہے، درست اور بروقت تشخیص نہ ہونے کے سبب اس مرض میں مبتلا مریض جلد معذوری کا شکار ہو جاتے ہیں۔

انھوں نے کہا ڈالر کی قدر میں مسلسل اضافے، ایل سیز کے بروقت نہ کھلنے کے باعث اس مرض کی ادویات کی درامد نہ ہونے کی وجہ سے دواؤں کی قلت پیدا ہو گئی ہے، حکومت سندھ کے ساتھ 200 مریضوں کے مفت علاج کا پروجیکٹ بھی ادھورا ہے، حکومت نے یقین دہانی کروائی تھی کہ ملٹی پل اسکلروسیس کے 200 مریضوں کو سال میں دو انجکشن فراہم کیے جائیں گے، تاہم منصوبہ روبہ عمل نہیں لایا جا سکا۔

ماہرین کا کہنا تھا کہ مرکزی اعصابی (دماغی) نظام میں پیدا ہونے والی ایک بیماری کا نام ملٹی پل اسکلروسیس (ایم ایس) ہے، یہ ایک بہت پرانا مرض ہے جو اعصابی نظام پر اثر انداز ہوتا ہے۔

انھوں نے کہا کہ یہ بیماری عام طور پر 18 سے 30 سال کی عمر کے نوجوانوں کو ہوتی ہے، بالعموم لڑکیوں میں یہ بیماری زیادہ دیکھی گئی ہے، یہ ایک سوزشی بیماری ہے، جو مرکزی اعصابی نظام یعنی دماغ، مغز کے حصے، دماغی پٹھے ، ریڑھ کی ہڈی کے حرام مغز کو متاثر کرتی ہے۔

ماہرین کے مطابق اس بیماری کی علامات میں بینائی چلی جانا، جسے آپٹک نیوریٹک کہتے ہیں، ہاتھ پاؤں کا کام چھوڑ دینا شامل ہیں، جس کے نتیجے میں انسان چلنے پھرنے سے معذور ہو جاتا ہے ۔

ڈاکٹروں کا کہنا تھا کہ اس بیماری کی بہ آسانی تشخیص کی جا سکتی ہے، کوئی بھی نیورولوجسٹ مریض کا طبی معائنہ اور ایم آر آئی کے نتیجے میں اس بیماری کی تشخیص کر سکتا ہے، اس بیماری کا دنیا بھر میں علاج موجود ہے اور اگر علاج نہ ہو تو مریض پانچ سال کے اندر مستقل معذوری کا شکار ہو جاتا ہے اور پھر کبھی اپنے پیروں پر کھڑا نہیں ہو سکتا، یا زندگی بھر کے لیے بینائی سے محروم ہو جاتا ہے۔

انھوں نے کہا کہ دواؤں کے نتیجے میں اس بیماری کے شکار افراد نارمل زندگی گزار سکتے ہیں، لیکن ملٹی پل اسکلروسیس کی دوائیں بہیت مہنگی ہیں اس لیے ہر فرد خرید نہیں سکتا، اس لیے حکومت کو چاہیے کہ وہ مفت دواؤں کی فراہمی کو یقینی بنائے۔

ماہرین کے مطابق یہ بیماری پاکستان میں عام نہیں ہے، ملٹی پل اسکلروسیس کے علاج کے لیے آف لیبل ڈرگس زیادہ استعمال ہو رہی ہیں، آف لیبل دوائیں وہ ہیں جن کے بارے میں تحقیق نہیں ہوئی کہ یہ دوائیں اس بیماری میں کتنی مؤثر ہیں اور انھیں مجبوری میں استعمال کیا جاتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ حکومت سندھ کے ساتھ پروجیکٹ شروع کیا گیا تھا جس کے تحت حکومت ملٹی پل اسکلروسیس کے 200 مریضوں کو سال میں دو انجکشن مفت لگائے جانے تھے، اس پروجیکٹ کے تحت 67 مریض رجسٹرڈ ہوئے تھے جنھیں صرف ایک ہی ڈوز دی گئی، اور اب یہ پروجیکٹ رکا ہوا ہے، حکومت سندھ اس پروجیکٹ کو دوبارہ شروع کیرے۔

ماہرین نے کہا کہ دنیا بھر میں حکومتیں ملٹی پل اسکلروسیس کی مفت دوائیں فراہم کرتی ہیں، حکومت پاکستان اور صوبائی حکومتوں کو بھی اس بیماری میں مبتلا افراد کو مفت دوائیں فراہم کرنی چاہئیں، انھوں نے یہ مطالبہ بھی کیا کہ حکومت کو چاہیے کہ ان دوائوں کو پاکستان میں تیار کیا جائے۔

واضح رہے کہ پاکستان میں ملٹی پل اسکلروسیس کی بیماری کے اعداد و شمار موجود نہیں ہیں، تاہم پڑوسی ملک ایران میں ایک لاکھ افراد میں 25 افراد اس بیماری کا شکار ہیں اور اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان میں بھی ایک لاکھ کی آبادی میں 10 سے 25 افراد اس بیماری کا شکار ہو سکتے ہیں۔

سیمینار سے نیورولوجی اویرنس اینڈ ریسرچ فاؤنڈیشن کے صدر پروفیسر محمد واسع اور جنرل سیکریٹری پروفیسر ڈاکٹر عبدالمالک، سربراہ شعبہ نیورولوجی ڈائو یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز و معروف نیورولوجسٹ پروفیسر ڈاکٹر نائلہ شہباز، آغا خان اسپتال کی ریسرچ ایسوسی ایٹ آف نیورولوجی ڈاکٹر شفق سلیم، پمز اسپتال کے ڈاکٹر ماجد حارث، آغا خان اسپتال کے ڈاکٹر ظفر سجاد اور ڈاکٹر میاں ایاز الحق نے خطاب کیا۔

Comments

- Advertisement -