تازہ ترین

حکومت کا ججز کے خط پر انکوائری کمیشن بنانے کا اعلان

اسلام آباد: وفاقی حکومت نے اسلام آباد ہائی کورٹ...

فوجی عدالتوں سے 15 سے 20 ملزمان کے رہا ہونے کا امکان

اسلام آباد : اٹارنی جنرل نے فوجی عدالتوں سے...

اکیسویں صدی میں بھی جدید غلامی بدترین شکل میں موجود

دنیا ترقی یافتہ ہوچکی ہے، پرانے دور کے تقریباً تمام رسوم و رواج اور روایات ختم ہوچکے ہیں لیکن انسانی غلامی ایک ایسا ناسور ہے جو آج بھی دنیا کے بیمار انسانی معاشرے کی طرف اشارہ کر رہا ہے۔

دنیا بھر میں آج غلامی کے خاتمے کا عالمی دن منایا جارہا ہے، غلام کا انگریزی لفظ سلیو بنیادی طور پر مشرقی یورپ کے ایک اقلیتی گروہ Slavs سے ماخوذ ہے جنہیں قرون وسطیٰ میں غلام بنایا جاتا رہا۔

انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن کے مطابق اس وقت دنیا بھر میں 5 کروڑ افراد کسی نہ کسی قسم کی غلامی میں زندگی بسر کرہے ہیں۔

دراصل عالمی ادارے دنیا بھر میں جاری انسانی اسمگلنگ، جبری مزدوری، قرض چکانے کے لیے خدمت، جبری خدمت کے عوض شادی اور کاروباری جنسی استحصال کو جدید غلامی قرار دیتے ہیں۔

اس وقت 5 کروڑ میں سے 2 کروڑ 80 لاکھ افراد جبری مزدوری اور 2 کروڑ 20 لاکھ افراد جبری شادی کے چنگل میں پھنسے ہوئے ہیں۔

ماضی میں دنیا بھر میں غلامی ایک ادارہ اور کاروبار تھا، یورپی اقوام غلاموں کی تجارت میں سب سے بدنام رہیں۔ افریقہ سے لاکھوں لوگوں کو اغوا کر کے غلام بنایا جاتا اور دنیا بھر میں فروخت کیا جاتا تھا۔

برطانوی سلطنت میں سنہ 1833 میں غلامی کا خاتمہ ہوگیا تاہم جدید غلامی ایکٹ جس میں انسانی اسمگلنگ اور جبری مشقت کو غیر قانونی قرار دیا گیا، صرف چند برس قبل سنہ 2015 میں منظور کیا گیا۔

جس وقت برطانیہ میں غلامی کا خاتمہ کیا گیا اس وقت معاوضے کے طور پر ایک بڑی رقم مختص کی گئی تاہم یہ رقم غلاموں کے بجائے ان کے 46 ہزار سابقہ مالکان کو دی گئی جن کے کاروبار زندگی غلاموں کے بغیر معطل ہوگئے تھے، 8 لاکھ غلام آزاد ہو کر بھی خالی ہاتھ رہ گئے۔

قدیم روم میں موسم سرما کے ایک فیسٹیول میں غلام اور مالکان کچھ وقت کے لیے اپنے کردار بدل لیا کرتے تھے اور غلام مالکان، جبکہ مالکان غلام بن جایا کرتے تھے۔

امریکا میں سولہویں صدر ابراہام لنکن نے غلامی کو ختم کرنے کی ٹھانی اور اس کے لیے طویل خانہ جنگی لڑی، اس جنگ کو امریکا کی خونریز ترین جنگ کہا جاتا ہے۔

بالآخر لنکن اپنے عظیم مقصد میں کامیاب رہا اور 1865 میں امریکا میں غلامی غیر قانونی قرار پائی۔

اس کے علاوہ بھی دنیا کے مختلف حصوں میں غلامی کے خلاف طویل جدوجہد کی گئی اور عصری شعور پھیلتا گیا، تاہم یہ کہنا غلط ہوگا کہ غلامی ختم ہوگئی ہے، اس نے اپنی شکل ضرور بدل لی ہے۔

امریکا کی واک فاؤنڈیشن کا کہنا ہے کہ ہر 3 غلام افراد میں ایک بچہ شامل ہے جو غلامی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہے، جبکہ غلاموں کی نصف تعداد خواتین اور نوجوان لڑکیوں پر مشتمل ہے۔

گلوبل سلیوری انڈیکس کے مطابق جن 10 ممالک میں اس وقت بڑے پیمانے پر غلامی موجود ہے، ان میں جنوبی کوریا، ایران، افغانستان اور چند افریقی ممالک شامل ہیں اور بدقسمتی سے پاکستان بھی اس میں آٹھویں نمبر پر ہے۔

Comments

- Advertisement -