تازہ ترین

اسرائیل کا ایران پر فضائی حملہ

امریکی میڈیا کی جانب سے یہ دعویٰ سامنے آرہا...

روس نے فلسطین کو اقوام متحدہ کی مکمل رکنیت دینے کی حمایت کردی

اقوام متحدہ سلامتی کونسل کا غزہ کی صورتحال کے...

بیوٹی پارلرز اور شادی ہالز پر فکس ٹیکس لگانے کا فیصلہ

پشاور: خیبرپختونخوا حکومت نے بیوٹی پارلرز اور شادی ہالز...

چمن میں طوفانی بارش، ڈیم ٹوٹ گیا، مختلف حادثات میں 7 افراد جاں بحق

چمن: بلوچستان کے ضلع چمن میں طوفانی بارشوں نے...

اوزون کی حفاظت کا عالمی دن: ہمارا سائباں چھن جانے کے قریب

دنیا بھر میں آج کرہ ارض کو سورج کی تابکار شعاعوں سے بچانے والی اوزون تہہ کی حفاظت کا عالمی دن منایا جارہا ہے۔ یہ تہہ سورج کی خطرناک شعاعوں کو براہ راست زمین پر آنے سے روکے ہوئے ہے۔

اوزون آکسیجن کی وہ شفاف تہہ ہے جو سورج کی خطرناک تابکار شعاعوں کو نہ صرف زمین کی طرف آنے سے روکتی ہے بلکہ زمین پر اس کے نقصان دہ اثرات کا خاتمہ بھی کرتی ہے۔ اوزون کی تہہ کا 90 فیصد حصہ زمین کی سطح سے 15 تا 55 کلومیٹر اوپر بالائی فضا میں پایا جاتا ہے۔

سنہ 1970 میں مختلف تحقیقات سے پتہ چلا کہ انسانوں کے بنائے ہوئے مرکبات کی زہریلی گیسیں اوزون کی تہہ کو تباہ کر رہی ہیں۔ تباہی سے مراد اس کی موٹائی میں کمی ہونا یا اس میں شگاف پڑنا ہے۔

سنہ 1974 میں امریکی ماہرین ماحولیات نے اوزون کی تہہ کے تحفظ سے متعلق آگاہی کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے واضح کیا کہ اوزون کی تہہ کو لاحق خطرات کے باعث اگلے 75 سالوں میں اس تہہ کا خاتمہ ہوسکتا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ خاتمے کی صورت میں نہ صرف دنیا بھر کا درجہ حرارت انتہائی حد تک بڑھ جائے گا بلکہ قطب جنوبی میں برف پگھلنے سے چند سالوں میں دنیا کے ساحلی شہر تباہ ہو جائیں گے۔

دسمبر 1994 میں اقوام متحدہ نے آج کے دن کو اوزون کی حفاظت کے دن سے منسوب کیا جس کا مقصد اس تہہ کی اہمیت کے بارے میں شعور و آگاہی پیدا کرنا ہے۔

اوزون کو کس چیز سے خطرہ لاحق ہے؟

دنیا کی تیز رفتار ترقی نے جہاں کئی ممالک کو ترقی یافتہ ممالک کی صف میں لاکھڑا کیا وہیں اس ترقی نے ہماری زمین پر ناقابل تلافی خطرناک اثرات مرتب کیے۔

ہماری فیکٹریوں سے خارج ہونے والی زہریلی گیس کاربن مونو آکسائیڈ ہماری فضا میں موجود آکسیجن کے ساتھ مل کر کاربن ڈائی آکسائیڈ میں تبدیل ہوجاتی ہے۔ کاربن کا اخراج ہماری اور ہماری زمین کی صحت کے لیے نہایت مضر ہے اور یہ اوزون پر بھی منفی طور سے اثر انداز ہو رہا ہے۔

اس کا سب سے زیادہ اثر برف سے ڈھکے انٹار کٹیکا کے علاقے میں ہوا جہاں اوزون کی تہہ میں گہرا شگاف پیدا ہوگیا۔ اوزون کو نقصان کی وجہ سے اس علاقے میں سورج کی روشنی پہلے کے مقابلے میں زیادہ آنے لگی جس سے ایک تو اس علاقہ کے اوسط درجہ حرارت میں اضافہ ہوا دوسری جانب برف کے تیزی سے پگھلنے کے باعث سمندروں کی سطح میں اضافہ ہوا جس سے دنیا بھر میں شدید سیلاب آنے کے خدشات بڑھ گئے ہیں۔

تاہم گزشتہ برس ماہرین نے تصدیق کی کہ انٹار کٹیکا کے اوپر اوزون میں پڑنے والا شگاف رفو ہورہا ہے اور 2050 تک یہ پہلے کی طرح مکمل ٹھیک ہوجائے گا۔

اوزون کی تہہ کو ان چیزوں سے بھی نقصان پہنچتا ہے۔

جنگلات کا بے دریغ کٹاؤ

سڑکوں پر دھواں دینے والی گاڑیوں اور ویگنوں کے استعمال میں اضافہ

کوڑا کرکٹ کو جلانے کے بعد اس سے نکلنے والا زہریلا دھواں

کلورو فلورو کاربن یعنی سی ایف سی مرکبات کا استعمال۔ یہ گیس انرجی سیور بلب، ڈیپ فریزر، ریفریجریٹرز، کار، ایئر کنڈیشنر، فوم، ڈرائی کلیننگ، آگ بجھانے والے آلات، صفائی کے لیے استعمال ہونے والے کیمیکل اور فیومیگیشن میں ہوتا ہے۔

اوزون تہہ کی تباہی کی صورت میں کیا ہوگا؟

اوزون کی تہہ تباہ ہونے یا اس کی موٹائی میں کمی ہونے کی صورت میں یہ نقصانات ہوں گے۔

دنیا بھر کے درجہ حرارت میں شدید اضافہ

عالمی سمندروں کی سطح میں اضافہ

دنیا بھر میں سیلابوں کا خدشہ اور ساحلی شہروں کے مکمل طور پر صفحہ ہستی سے مٹ جانے کا خدشہ

سورج کی تابکار شعاعوں کا زمین پر براہ راست آنا جس سے انسانوں و جانوروں میں جلدی بیماریوں اور مختلف اقسام کے کینسر میں اضافہ ہوسکتا ہے۔

شدید گرمی سے درختوں اور پودوں کو نقصان

گرم موسم کے باعث زراعت میں کمی جس سے کئی علاقوں میں قحط اور خشک سالی کا خدشہ ہے

ٹھنڈے علاقوں میں رہنے والے جانوروں کی نسل معدوم ہونے کا خدشہ

اوزون کو بچانے کے لیے کیا کیا جائے؟

اوزون کی حفاظت ماحول دوست گیسوں کے حامل برقی آلات اور مشینری کے استعمال سے ممکن ہے۔

ماہرین کے مطابق دنیا بھر میں طویل المدتی شہری منصوبہ بندی کی ضرورت ہے جس کے تحت کھلے، ہوادار گھر بنائے جائیں اور ان میں سبزہ اگایا جائے تاکہ وہ ٹھنڈے رہیں اور ان میں رہائش پذیر افراد کم سے کم توانائی کا استعمال کریں۔

نقصان دہ گیسز کا کم سے کم اخراج ہی اس ضروری تہہ کی حفاظت کرسکتا ہے۔

رفو گری کے 32 سال

رواں برس اس دن کا مرکزی خیال ’رفو گری کے 32 سال‘ رکھا گیا ہے۔

آج سے 3 دہائیاں قبل سنہ 1987 میں اقوام متحدہ کے زیر نگرانی 150 سے زائد ممالک نے ایک معاہدے پر دستخط کیے جسے مونٹریال پروٹوکول کہا جاتا ہے۔

دراصل ماہرین نے دیکھا کہ تیز رفتار ٹیکنالوجی نے جہاں ہمیں انرجی سیور بلب، ڈیپ فریزر، ریفریجریٹرز اور ایئر کنڈیشنر کا تحفہ دیا ہے، تو ان میں کلورو فلورو کاربن یعنی سی ایف سی مرکبات کا بے تحاشہ استعمال کیا جارہا ہے جو بالآخر ہماری فضا میں خارج ہورہا ہے۔

یہ زہریلی گیسز اوزون کو بری طرح نقصان پہنچا رہی تھیں۔ مونٹریال پروٹوکول میں انہی گیسز کے کم استعمال کا عزم کیا گیا۔ اب 3 دہائیوں بعد اس معاہدے کے 99 فیصد اہداف کو حاصل کرلیا گیا۔

Comments

- Advertisement -