تازہ ترین

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پروٹوکول واپس کر دیا

چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے چیف...

کاروباری شخصیت کی وزیراعظم کو بانی پی ٹی آئی سے ہاتھ ملانے کی تجویز

کراچی: وزیراعظم شہباز شریف کو کاروباری شخصیت عارف حبیب...

وزیراعظم شہباز شریف کی مزار قائد پر حاضری

وزیراعظم شہباز شریف ایک روزہ دورے پر کراچی پہنچ...

ایران کے صدر ڈاکٹر ابراہیم رئیسی دورہ پاکستان مکمل کرکے واپس روانہ

کراچی: ایران کے صدر ڈاکٹر ابراہیم رئیسی دورہ پاکستان...

مزاح کے عالمی دن پر مزاحیہ اردو ادب سے چند شہ پارے

آج دنیا بھر میں مزاح کا عالمی دن منایا جارہا ہے۔ آج کا دن زندگی کی پریشان کن مصروفیات میں سے کچھ لمحے نکال کر ایک دوسرے سے خوشگوار باتیں کرنے اور ہنسنے سے منسوب ہے۔

ہمارا اردو ادب نہایت زرخیز ہے جس میں ہر موضوع کے مصنف و شاعر موجود ہیں۔ اسی طرح اردو ادب میں مزاح کی بھی کوئی کمی نہیں۔

اردو زبان کے وجود میں آںے سے لے کر اب تک بے شمار مصنفوں و شاعروں نے مزاح لکھا جنہیں پڑھنے کے لیے آج کے دن سے بہتر موقع اور کوئی نہیں۔

تو پھر آئیں مزاح کے عالمی دن پر اردو میں لکھے گئے مزاح سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔

مشتاق احمد یوسفی

مشتاق احمد یوسفی اردو ادب کا ایک بڑا نام ہیں۔ معروف مصنف ابن انشا نے، جو بذات خود ایک بڑے مزاح نگار ہیں، ان کے بارے میں کہا تھا، ’ہم مزاح کے عہد یوسفی میں جی رہے ہیں‘۔

یوں تو یوسفی صاحب کا لکھا گیا ہر جملہ ہی باغ و بہار ہے، ان میں سے کچھ ہم نے آپ کے لیے منتخب کیے ہیں۔

انسان کتنا ہی ہفت زبان کیوں نہ ہو جائے، گالی، گنتی، گانا اور گندا لطیفہ اپنی زبان میں ہی لطف دیتا ہے۔

بڑھیا سگرٹ پیتے ہی ہرشخص کو معاف کردینے کو جی چاہتا ہے۔ خواہ وہ رشتے دار ہی کیوں نہ ہو۔

دنیا میں جتنی لذیذ چیزیں ہیں ان میں سے آدھی تو مولوی حضرات نے حرام کردی ہیں، اور بقیہ آدھی ڈاکٹر صاحبان نے۔

مونگ پھلی اور آوارگی میں یہ خرابی ہے کہ آدمی ایک دفعہ شرع کرے تو سمجھ نہیں آتا کہ ختم کیسے کرے۔

مرد کی آنکھ اور عورت کی زبان کا دم سب سے آخر میں نکلتا ہے۔

پطرس بخاری

پطرس بخاری کا مضمون ’ہاسٹل میں پڑنا‘، اور ’سائیکل کی سواری‘ ہم سب ہی نے اپنی نصابی کتب میں پڑھ رکھا ہے۔

اپنی کتاب مضامین پطرس کے دیباچہ میں وہ لکھتے ہیں۔

اگر یہ کتاب آپ کو کسی نے مفت بھیجی ہے تو مجھ پر احسان کیا ہے۔ اگر آپ نے کہیں سے چرائی ہے تو میں آپ کے ذوق کی داد دیتا ہوں۔ اپنے پیسوں سے خریدی ہے تو مجھے آپ سے ہمدردی ہے، اب بہتر یہ ہے کہ آپ اسے اچھا سمجھ کر اپنی حماقت کو حق بجانب ثابت کریں۔

اپنے مضمون سویرے جو کل آنکھ میری کھلی میں اپنے پڑوسی کے لیے، جنہیں خود پطرس نے اپنے آپ کو جگانے کے کام پر معمور کر رکھا ہے، لکھتے ہیں۔

یہ سوتوں کو جگا رہے ہیں یا مردوں کو اٹھا رہے ہیں اور حضرت عیسیٰ بھی تو واجبی طور پر ہلکی سی قم کہہ دیا کرتے ہوں گے۔ زندہ ہوگیا تو ہوگیا نہیں تو چھوڑ دیا، کوئی مردے کے پیچھے لٹھ لے کر تھوڑی پڑجایا کرتے تھے، توپیں تھوڑی داغا کرتے تھے۔

اپنے پہلی بار سینما جانے کا احوال وہ کچھ یوں بیان کرتے ہیں۔

تھوڑی دیر بعد تاریکی میں کچھ دھندلے سے نقش دکھائی دینے لگے، جہاں ذرا تاریک سا دھبہ دکھائی دے جائے وہاں سمجھتا ہوں خالی کرسی ہوگی۔ خمیدہ پشت ہو کر اس کا رخ کرتا ہوں اس کے پاؤں کو پھاند، اس کے ٹخنوں کو ٹکرا، خواتین کے گھٹنوں سے دامن بچا آخر کار کسی کی گود میں جا بیٹھتا ہوں۔ وہاں سے نکال دیا جاتا ہوں اور لوگوں کے دھکوں کی وجہ سے کسی خالی کرسی تک جا پہنچتا ہوں۔

شوکت تھانوی

شوکت تھانوی کی شہرہ آفاق تخلیق چاچا چھکن ہے جس کی بیوقوفیوں اور بد حواسیوں نے ایک دنیا کو اپنا دیوانہ بنا رکھا تھا۔

اپنے ایک مضمون میں شوکت تھانوی لکھتے ہیں۔

جس بیکاری (بے روزگاری) سے ایک دنیا چیخ اٹھتی ہے اس سے ہندوستان کیوں گھبراتا ہے، ہندوستان تو بقول ہمارے خداوندان نعمت کے ایک جاہل، وحشی، غیر مہذب اور کالے آدمیوں کا ملک ہے، یہاں اگر بیکاری ہے تو کیا تعجب۔ جب یورپ ایسے متمدن، تعلیم یافتہ، مہذب اور گورے آدمیوں کے ملک میں یہ حال ہے کہ بے چارے صاحب لوگ ہر طرح ناکام ثابت ہو کر وہاں کے ہر شعبہ ملازمت سے علیحدہ کر دیے گئے ہیں اور ان کی جگہ میم صاحبات براج رہی ہیں۔

اگر خدانخواستہ ہندوستان میں بھی یہی صورت ہوجاتی کہ اندرون خانہ ایک دم سے بیرون خانہ اور بیرون خانہ ایک دم سے اندرون خانہ ہو کر رہ جاتے تو شاید یہاں کے لوگ ہندوستان کو حوا کی بیٹیوں کے لیے چھوڑ کر یا تو کسی اور دنیا میں چلے جاتے جہاں ابن آدم کی حکومت ہو یا خود کشی کر لیتے۔

اس لیے کہ یہ انقلاب ہندوستان کے مردوں کے لیے ناقابل برداشت ہے کہ ان کی بیویاں تو کچہری عدالت کریں اور وہ خود گھر داری کریں، بچوں کو کھلائیں، یعنی مرد پیدا ہو کر عورت کے فرائض انجام دیں۔

اپنے ایک مضمون نے شوکت تھانوی نے قلم سے ازار بند ڈالنے کی اصطلاح بھی تخلیق کی۔

ابن انشا

اردو مزاح نگاری میں ایک اہم نام ابن انشا کا ہے۔ انہوں نے دنیا بھر کا سفر کیا اور ان سفر ناموں کو نہایت پر مزاح انداز سے تحریر کیا۔

ان کی مشہور زمانہ کتاب اردو کی آخری کتاب ہے جس میں ملک میں بڑھتے ہوئے صوبائی تعصب پر چوٹ کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔

کوئی پوچھتا ہے، الگ ملک کیوں بنایا تھا؟ ہم کہتے ہیں، غلطی ہوئی معاف کیجیئے گا، آئندہ نہیں بنائیں گے۔

ایک اور جگہ لکھتے ہیں۔

بھینس دودھ دیتی ہے لیکن یہ کافی نہیں ہوتا۔ لہٰذا باقی دودھ گوالا دیتا ہے اور ان دونوں کے باہمی تعاون سے ہم شہریوں کا کام چلتا ہے۔

کرنل شفیق الرحمٰن

اردو مزاح میں ایک اور اہم نام کرنل شفیق الرحمٰن کا ہے جن کے افسانوں کی کتاب حماقتیں نہایت مشہور ہے۔

اپنے ایک افسانے میں شفیق الرحمٰن لکھتے ہیں۔

بچوں کا غبارہ اڑ گیا تو وہ یہ دریافت فرما رہے تھے کہ کشش ثقل نے غبارے کو روکا کیوں نہیں؟ کشش ثقل سے ان کا اعتبار اٹھ چلا تھا۔

ایک اور جگہ لکھتے ہیں۔

ایک بار ایک بزرگ نے فرمایا، ’جب میں چھوٹا سا تھا تو اس قدر نحیف تھا، اتنا کمزور تھا کہ میرا وزن چار پونڈ تھا۔ مجھے دنیا کی بیماریوں نے گھیرے رکھا‘۔


مزاحیہ اردو شاعری

میر تقی میر اور غالب سے لے کر جدید شاعروں نے متفرق معاشرتی موضوعات پر لطیف پیرائے میں چوٹ کرتے ہوئے اپنی شاعری کو مزاح کا رنگ دیا تاہم اردو مزاحیہ شاعری میں سب سے بڑا نام اکبر الہٰ آبادی کا ہے۔

اکبر الہٰ آبادی

سرسید کی ترقی پسند تحریک اور ہندوستان میں تبدیلی کی ہواؤں سے بیزار اکبر الہٰ آبادی جا بجا اپنی شاعری کے ذریعے نئے رجحانات پر چوٹ کرتے دکھائی دیتے ہیں۔

بے پردہ کل جو آئیں نظر چند بیبیاں
اکبر زمیں میں غیرت قومی سے گڑ گیا
پوچھا جو ان سے آپ کا پردہ وہ کیا ہوا
کہنے لگیں کہ عقل پہ مردوں کی پڑ گیا

ان کا ایک اور شعر ہے۔

بوڑھوں کے ساتھ لوگ کہاں تک وفا کریں
لیکن نہ آئے موت تو بوڑھے بھی کیا کریں

سید ضمیر جعفری

سید ضمیر جعفری کو اردو مزاحیہ شاعری کا سالار کہا جاتا ہے۔ ان کا یہ شعر دیکھیں۔

اس نے کی پہلے پہل پیمائش صحرائے نجد
قیس ہے دراصل اک مشہور پٹواری کا نام

ان کا ایک اور شعر ہے۔

حضرت اقبال کا شاہیں تو ہم سے اڑ چکا
اب کوئی اپنا مقامی جانور پیدا کرو

دلاور فگار

دلاور فگار جدید اردو کے مزاحیہ شاعر ہیں۔ فگار خاصے خود پسند شاعر تھے اور اپنے آگے کسی کو کچھ نہیں گردانتے تھے۔

وہ کون ہیں کہ شاعر اعظم کہیں جسے
میں نے کہا ’جگر‘ تو کہا ڈیڈ ہو چکے
میں نے کہا کہ ’جوش‘ کہا، قدر کھو چکے

انور مسعود

موجودہ دور میں انور مسعود کا نام مزاحیہ شاعری میں سرفہرست ہے جن کے قطعات مختلف اخبارات میں چھپتے رہتے ہیں۔

ان کا کئی برس قبل لکھا گیا ایک قطعہ پڑھیں جو بالکل تازہ معلوم ہوتا ہے۔

چاند کو ہاتھ لگا آئے ہیں اہل ہمت
اب ارادہ ہے کہ وہ جانب مریخ بڑھیں
ایک ہم ہیں کہ دکھائی نہ دیا چاند ہمیں
ہم اسی سوچ میں ہیں، عید پڑھیں یا نہ پڑھیں

Comments

- Advertisement -