کراچی: معروف دفاعی تجزیہ نگار لیفٹیننٹ جنرل (ر) امجد شعیب کا کہنا ہے کہ پنجاب میں آپریشن شروع ہوچکا ہے لیکن سیاسی مداخلت کے سبب زیادہ کامیابی کی امیدیں نہیں ہیں۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف کہتے رہے کہ جب تک گورننس بہتر نہیں ہوگی اس وقت تک ملک کے حالات بہترنہیں ہوں گے لیکن بدقسمتی سے اس کی جانب کوئی توجہ نہیں دی جارہی ہے۔
دفاعی تجزیہ کار لیفٹینٹ جنرل (ر ) امجد شعیب نے پاکستان آرمی میں اپنی خدمات سر انجام دینے کے بعد
یکٹا وی اور ہپ پاک فاونڈیشن ( تیل اور کھاد کی کمپنیاں) میں بطور چیئر مین کام کیا، اب دفاعی اور
سیاسی تجزیہ کار کے طور پر مختلف ٹاک شو میں اپنے تجربے کی بنیاد پر تبصرے اورتجزیے پیش کرتے ہیں
اے آر وائی نیوز: موجودہ حالات کے پیش نظر، جب ملک کی سرحدیں جنگی کیفیت میں ہیں۔ اندرون ملک میں آپریشن کی صورت حال ہے، اس تناظرمیں آپ کا کیا تجز یہ ہے؟
لیفٹینٹ جنرل (ر) امجد شعیب: اس صورتِ حال کو امپروومنٹ کی جانب پیش رفت کہا جا سکتا ہے، پاکستان کے کتنے ایسے علا قے تھے جو دہشت گردوں کے کنٹرول میں تھے، پاکستان کی افواج نے وہاں سے ان کا کنٹرول ختم کروایا، ملک کے اندربھی بہتری آئی، کراچی آ پریشن کی مثال آپ کے سامنے ہے، مگرسارا کام مسلح افواج کا نہیں ہوتا، بہت سے کام سیاسی قوتوں کے بھی ہوتے ہیں، آرمی کا کام علاقوں سے عسکری قوتوں کو ختم کرنا ہے، سیاسی قوتوں کو بھی اپنا کردارادا کرنا چا ہیے.
اے آر وائی نیوز : سر ایک کے بعد ایک آپر یشن ہونا، ایسا کیوں ؟
لیفٹینٹ جنرل (ر) امجد شعیب: وہی نہ دیکھیں آرمی کا کام دہشت گردوں کی گرفت سے آزادی دلانا ہے، کسی بھی ملک کی آرمی اتنے عرصے ملک کے اندرنہیں رہتی ہے، وہ اپنا کام کر کے چلے جاتے ہیں ، پھر حکومتیں اپنا کام کرتی ہیں، اگرملک کا تعلیمی نظام اچھا ہو، بہترصحت کے مراکز ہوں، روزگار کا حصول ہو تو یہ صورت حال بار بار رونما نہ ہو، افواج کا کام عوام کا د فاع کرنا ہوتا ہے، جبکہ حکومتیں عوام کی بنیادی سہولتیں پوری کرتی ہیں، مگر ہمارے یہاں ہو کیا رہا ہے، وہ سب کے سامنے ہے، جنرل راحیل نے متعدد بارکہا کہ جب تک گورننس بہترنہیں ہوگی، ملک میں بہتری نہیں آئے گی، اب گورننس میں بہتری لانا مسلح افواج کا کام نہیں ہے، پھرکرپشن اوردہشت گردی کا گٹھ جوڑتوڑنا ضروری ہے مگر کیا ایسا ہوا ؟ سندھ میں جب رینجرز نے کسی بڑے نام پر ہاتھ ڈالا ایک عجیب صورت حال سامنے آ ئی، نیشنل ایکشن پلان میں جو پوائنٹس آرمی کی ذمے داری تھے وہ آرمی نے نیک نیتی کے ساتھ کیے۔
اے آروائی نیوز : آپر یشن ضر ب عضب اور آپر یشن رد الفساد کے درمیان کیا فرق ہے، آپر یشن رد الفساد، آپر یشن ضر ب عضب سے کیسے مختلف ہوگا؟
لیفٹینٹ جنرل (ر) امجد شعیب: اس کی وسعت زیا دہ ہے، مختلف بھی ہے، اس میں تینوں افواج مصروف عمل ہیں، ملک کو اسلحہ سے پاک کرنا ہے، پھر اس آپریشن ردالفساد میں پولیس اورسول انیٹلی جنس بھی تعاون کر رہی ہیں۔
اے آر وائی نیوز: پنجاب میں جو آپریشن ہو رہا ہے وہ کراچی آپریشن سے کتنا مختلف ہوگا ؟
لیفٹینٹ جنرل (ر) امجد شعیب: پہلے جو پنجاب میں آپریشن تھا وہ صوبائی حکومت اپنی پولیس سے کروا رہی تھی، مگر وہ کارگر ثابت نہیں ہوا، چھوٹو گنگ کا واقعہ سب کو پتہ ہے، پھر پنجاب حکومت کا ساؤتھ پنجاب کی طرف کوئی رجحان نہیں تھا، بہت اچھی توقع تو نہیں ہے کیونکہ چھاپے حکومت کی اجازت سے مارے جا ئیں گے، سندھ میں بھی اب رینجرز کو وہ اختیارات وہ نہیں رہے، کراچی تک ہی محدود ہیں، سیاسی مصلحتیں اورکرپشن کی مصلحتیں ایسی ہیں، جن کی وجہ سے دوراثر نتا ئج کا حصول ممکن نہیں ہو تا ہے.
اے آر وائی نیوز: فوجی عدالتوں کا معاملہ کس کروٹ بیٹھے گا ؟
لیفٹینٹ جنرل (ر) امجد شعیب: فوجی عدالتوں کا تقا ضا نہ پہلے آرمی کی جانب سے تھا نہ اب ہے ، اس میں بھی بہت سے مسائل ہیں، جیسے فوج کو اختیارنہیں کہ فوج اپنی مرضی سے کوئی کیس لے کرکارروائی کا آغا ز کرے، اب اگر کوئی اپنے منہ سے 100 قتل کا اعتراف کررہا ہے تو کیا اس کا کیس فوجی عدالت میں نہیں چلنا چا ہیے؟ مگر ایسا نہیں ہوتا کیوں کہ اس سلسلے میں بڑے بڑے نام سامنے آجائیں گے، لہذا اس لئے کیس کو دبایا جاتا ہے
اے آروائی نیوز: افغانیوں کے حوالے سے جو کارروائیاں ہو رہی ہیں ، یہ پالیسی کس کے ہاتھ میں ہے ؟
لیفٹینٹ جنرل (ر) امجد شعیب: پالیسیاں ساری حکومت کے ہاتھ میں ہیں، فوج صرف معاونت کررہی ہے، سرحدی انتشار سے ایسا لگ رہا ہے کہ فوج کے ہاتھ میں ہیں، حالانکہ ایسا نہیں ہے، یہ سارے اقدامات وزیراعظم کے احکامات کے بعد کیے گئے ہیں.