تازہ ترین

فوجی عدالتوں سے 15 سے 20 ملزمان کے رہا ہونے کا امکان

اسلام آباد : اٹارنی جنرل نے فوجی عدالتوں سے...

نیا کپتان کون؟ سفارشات چیئرمین پی سی بی کو ارسال

پاکستان کرکٹ ٹیم کا وائٹ بال میں نیا کپتان...

وفاقی حکومت نے آٹا برآمد کرنے کی اجازت دے دی

وفاقی حکومت نے برآمد کنندگان کو آٹا برآمد کرنے...

وزیراعظم شہباز شریف آج چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی سے اہم ملاقات کریں گے

اسلام آباد : وزیراعظم شہبازشریف اور چیف جسٹس سپریم...

”یار تم لوگوں کو کوئی مرثیہ ورثیہ یاد ہے؟“

انتظار حسین کے بقول ان کے پاس دوسروں کی طرح ہجرت کی مظلومیت کی کوئی ذاتی کہانی نہیں تھی جسے بیان کر کر کے وہ لوگوں کی ہمدردیاں سمیٹ سکتے۔ لہٰذا انہوں نے تقسیم اور ہجرت کے بعد جو کچھ لاہور میں دیکھا، اسے اپنی سوانح میں سمیٹ لیا۔

اردو کے اس ممتاز فکشن رائٹر کو ان کے منفرد حکایتی اسلوب اور خوب صورت طرزِ نگارش کے لیے ادب کی دنیا میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ انتظار حسین پہلے پاکستانی ادیب تھے جن کا نام مین بکر پرائز کے لیے شارٹ لسٹ کیا گیا تھا۔ اس کا نام انھوں نے چراغوں کا دھواں رکھا۔ یہ ان کے پچاس برس کی یادوں کا خزانہ ہے۔

یہ کتاب تقسیم اور ہجرت کے بعد کے لاہور میں علم و فنون کی گویا ایک تاریخ ہے۔ کون سا شاعر یا ادیب کس شہر سے آیا، کہاں ٹھہرا، کیسے اپنا تخلیقی سفر شروع کیا، کیسی مشکل جھیلی، اس کی یافت کا ذریعہ کیا تھا، کس نے کیا کچھ کیا، کون کس کو عزیز تھا اور معاصرین کی ادبی چشمک کا حال۔ اسی طرح ادبی رسائل و جرائد جیسے سویرا، لیل و نہار، خیال، ساقی، آفاق کی ابتدا، ان کے عروج اور زوال کی کہانیاں انتظار حسین کے اسلوب میں‌ امر ہوگئی ہیں۔ اسی کتاب سے فنون و ادب سے وابستہ نام ور ہستیوں سے متعلق ایک خوب صورت یاد ہم آپ لیے نقل کررہے ہیں۔

انتظار حسین لکھتے ہیں، ”شاکر صاحب کو سبط حسن سے واقعی بہت لگاؤ تھا۔ بہت پکی دوستی تھی۔ ایسی پکی کہ ایک مرتبہ ان کی خاطر وہ اچھے خاصے مولائی بن گئے تھے۔ وہ عاشور کی دوپہرتھی۔ میں، ناصر (کاظمی) اور (احمد) مشتاق ٹی ہاؤس میں بیٹھے تھے۔ انیس کی ایک جلد ہمارے بیچ رکھی تھی۔ مظفر(علی سید) کی فراہم کردہ۔ اس جلد کو مشتاق نے ان تاریخوں میں کس خضوع خشوع سے پڑھا تھا۔ اچانک شاکر صاحب وارد ہوئے۔ نہ دعا نہ سلام ”اٹھو اٹھو یار، ہمارے گھر چلو مجلس کرنی ہے۔“

”مجلس “ہم تینوں نے شاکر صاحب کو تعجب سے دیکھا۔

”ہاں یار، سبطے میرے گھر بیٹھا ہے۔ کہتا ہے آج عاشور کا دن ہے۔ کچھ ماتم مرثیہ ہونا چاہیے۔ یار تم لوگوں کو کوئی مرثیہ ورثیہ یاد ہے۔ کوئی سوز، کوئی نوحہ۔ “

مشتاق بولا ”انیس جو موجود ہے۔ “

شاکر صاحب نے انیس کی جلد کو دیکھا، ”بس بس کام بن گیا۔ اٹھو، چلو جلدی سے۔ “

سو ہم شاکر صاحب کے یہاں پہنچے۔ سبطِ حسن وہاں سچی مچی محرمی صورت لیے بیٹھے تھے۔ مراثی انیس کی جلد اس وقت انھیں بہت بڑی نعمت نظر آئی۔ کس رقت بھری کیفیت میں انھوں نے سوز خوانی شروع کی۔ بازو کے طور پر دائیں احمد مشتاق اور بائیں خورشید شاہد۔

بعد میں ایک گفتگو میں سبط صاحب نے مجھے بتایا کہ شروع عمر میں انھوں نے بہت سوز خوانی کی ہے اور یہ کہ وہ بہت اچھے سوز خواں تھے۔“

Comments

- Advertisement -