حکیمُ الاّمت ڈاکٹر علّامہ محمد اقبال نے اپنی شاعری میں فطری مظاہر، خاص طور پر چرند پرند کی حرکا ت و سکنات، ان کی قوت و طاقت، عادات اور خوبیوں کو مثال بنا کر پیش کیا اور ان کے ذریعے اسلامیانِ ہند بالخصوص نوجوانوں کو درسِ خودی دیتے ہوئے محنت اور لگن سے اپنے مقصد کی تکمیل اور منزل کی جانب بڑھنے کا پیغام دیا۔
شاعرِ مشرق نے پرندوں کی معرفت نہ صرف انسانی جذبات کو خوبی سے پیش کیا بلکہ اس کے ذریعے کئی انفرادی اور اجتماعی مسائل کے حل کا راستہ بتایا ہے۔
انھوں نے اپنی شاعری میں کئی پرندوں کی صفات بیان کرتے ہوئے خاص طور پر مسلمانوں کو فکروعمل پر آمادہ کرنے کی کوشش کی ہے۔
شاہین
علامہ اقبال کی شاعری کا ایک خوش رنگ پرندہ شاہین ہے جس کی بلند پرواز، قوت و طاقت اور عزم کا اظہار ان کے کلام میں یوں ملتا ہے۔
برہنہ سَر ہے توعزم بلند پیدا کر
یہاں فقط سرِ شاہیں کے واسطے ہے کلاہ
شاہیں کبھی پرواز سے تھک کر نہیں گرتا
پُر دَم ہے اگر تُو تو نہیں خطرۂ افتاد
شہباز
شاعرِ مشرق نے اس پرندے کے شکار کرنے کی صلاحیت، قوتِ پرواز اور جھپٹنے کی تیزی سے ہمیں سبق دیتے ہوئے بتایا ہے۔
نگاہِ عشق دلِ زندہ کی تلاش میں ہے
شکار مردہ سزاوارِ شاہباز نہیں
ایک اور شکاری پرندے باز کا ذکربھی شاہین اور شہباز کی طرح علامہ اقبال کے فلسفۂ خودی کو بیان کرتا ہے۔
بلبل و طاؤس
اقبال نے بلبل و طاؤس کو مغربی تہذیب کی چمک دمک اور اس کے ظاہر کی رعنائی و دل کشی سے جوڑا ہےاور کئی مقامات پرانھوں نے نوجوانوں کےلیے اسے اپنے پیغام کا وسیلہ بنایا ہے۔
کر بلبل و طاؤس کی تقلید سے توبہ
بلبل فقط آواز ہے، طاؤس فقط رنگ
کرگس
یہ پرندہ مردار خور، مگر بلند پرواز ہے۔ اقبال کا کہنا ہے کہ خود دار و بلند عزم مومن کی صفات کرگس جیسی نہیں ہوسکتیں۔ وہ کتنی ہی بلندی پر کیوں نہ پرواز کرے، مگر اس میں وہ عزم اور حوصلہ، ہمت و دلیری کہاں جو شاہین کا وصف ہے۔
پرواز ہے دونوں کی اسی ایک فضا میں
کرگس کا جہاں اور ہے شاہیں کا جہاں اور
عقاب
یہ بھی بلند پرواز پرندہ ہے جس کی طاقت کو اقبال نے جوانوں میں ولولہ، ہمّت اور عزم پیدا کرنے کے لیے اپنے شعر میں یوں پیش کیا ہے۔
عقابی روح جب بیدار ہوتی ہے جوانوں میں
نظر آتی ہے ان کو اپنی منزل آسمانوں میں
ان پرندوں کے علاوہ تیتر، چرخ، چکور،طوطی، قمری،الّو،مرغ جیسے پرندوں کا ذکر علامہ اقبال کی شاعری میں ملتا ہے اور وہ ان کے ذریعے مسلمان قوم کو کوئی درس اور تلقین کرتے نظر آتے ہیں۔