یانگون: اے آر وائی نیوز کے پروگرام سرعام کے اینکر اور سینئر صحافی اقرار الحسن اپنی ٹیم کے ہمراہ میانمار میں ہونے والے مظالم اور فوجی آپریشن کی حقیقت دنیا کو دکھانے اور مظلوم مسلمانوں کی مدد کے لیے برما پہنچ گئے۔
تفصیلات کے مطابق سماجی رابطے کی ویب سائٹس پر جب روہنگیا مسلمانوں پر فوجی آپریشن اور حکومتی مظالم کی تصاویر شائع اور میڈیا پر خبریں نشر ہونا شروع ہوئیں تو بالخصوص دنیا بھر اور بالعموم پاکستان کے شہریوں نے اس بات پر انتہائی غم و غصے کا اظہار کیا۔
اے آر وائی نیوز کی ٹیم اقرار الحسن کی قیادت میں طویل اور دشوار گزار راستہ اختیار کر کے میانمار پہنچی اور ریخانے گاؤں میں داخل ہونے کی کوشش کی جہاں حکومتی مظالم عروج پر ہیں۔
Somewhere near Rakhine state, #Burma..trying to get in..but trust me it is the most difficult task of my Life. Plz Pray. #Myanmar #Rohingya pic.twitter.com/46Nf5lpFgc
— Iqrar ul Hassan Syed (@iqrarulhassan) September 8, 2017
اے آر وائی نیوز کے نمائندہ خصوصی اقرار الحسن نے اپنے ویڈیو پیغام میں بتایا کہ ’72 گھنٹے کا طویل اور دشوار گزار راستہ طے کر کے وہ اندرونی علاقوں تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے تاہم ابھی انہیں متاثرہ گاؤں میں داخلے کی اجازت نہیں ملی‘۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے مختلف طریقوں پر غور کر کے متاثرہ گاؤں میں داخل ہونے کی کوشش کی مگر برما کی حکومت اور فوج کسی بھی صحافی اور غیر ملکی کو اس گاؤں میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دے رہی جس کا مقصد مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کے حقائق کو چھپانا ہے۔
اقرار الحسن کا کہنا ہے کہ ہم ہر طرح سے اس علاقے میں داخل ہونے کی کوشش کررہے ہیں جہاں فوج کی جانب سے مظام کیے جارہے ہیں، ہم نے ہمت نہیں ہاری مگر حکومتی پابندیوں کی وجہ سے ریخنا تک پہنچنے میں ہی کامیاب ہوئے۔
اے آر وائی نیوز کے پروگرام سرعام کے اینکر اقرار الحسن نے ان تمام خبروں کے نشر ہونے کے بعد میانمار کا سفر کیا اور وہاں پہنچنے کے بعد انہوں نے بہادر شاہ ظفر کے مزار پر حاضری دی، اقرار الحسن کی برما میں موجودگی کا اُس وقت علم ہوا جب انہوں نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر اپنی تصویر شیئر کی۔
برما میں۔۔۔ بہادرشاہ ظفر کے مزار پر۔۔۔ باقی تفصیلات کام مکمل ہونے پر !! دعاوؤں کی درخواست #Burma #Myanmar #Rohingya pic.twitter.com/qCTeq5rfJo
— Iqrar ul Hassan Syed (@iqrarulhassan) September 7, 2017
اقرار الحسن میانمار میں ہونے والے مظالم کے شواہد اکھٹے کر کے جلد برما کی حکومت کا ظالم چہرہ دنیا کے سامنے دکھائیں گے تاکہ مظلوم مسلمانوں کے حق میں نہ صرف آواز بلند کی جائے بلکہ اُن کے تحفظ کے لیے خاطر خواہ اقدامات بھی کیے جائیں۔
میانمار میں حکومتی مظالم کے بعد لوگوں نے سوچی سے نوبل انعام واپس لینے کا مطالبہ کیا اور انہیں ہزاروں مسلمانوں کا قاتل قرار دیا، یاد رہے میانمار کے گاؤں ریخانے میں فوجی آپریشن جاری ہے جہاں برمی فوج پورے پورے گاؤں نذر آتش کررہے ہیں جس کے باعث وہاں بسنے والے لاکھوں مسلمان نقل مکانی کرنے پر مجبور ہیں۔
اقوام متحدہ کے اعلامیے کے مطابق اب تک ایک لاکھ چونسٹھ ہزار سے زائد مہاجرین بنگلہ دیش میں داخل ہوچکے ہیں اور پناہ گزین خیموں میں آباد ہورہے ہیں جہاں اُن کے لیے بنگالہ دیشی حکومت کی جانب سے کوئی خاطر خواہ اقدامات نہیں کیے گئے۔
واضح رہے کہ میانمار کے علاقے روہنگیا میں اب تک شدت پسندوں اور فوج کے تشدد سے چار سو سے زائد مسلمان شہید ہوچکے ہیں اور مسلمانوں کے کئی گاؤں جلا کر راکھ کردیے گئے ہیں۔
بنگلہ دیش میں داخل ہونے والے روہنگیا کے مسلمانوں کو حسینہ واجد نے اپنے ملک میں داخل نہ ہونے کی اپیل کرتے ہوئے مؤقف اختیار کیا تھا کہ اُن کے پاس مہاجرین کے لیے وسائل نہیں ہیں تاہم ترک صدر نے بنگلہ دیش کی حکومت سے اپیل کی کہ وہ مسلمانوں کو اپنے ملک میں داخلے کی اجازت دیں، مہاجرین کی کفالت پر جتنے بھی اخراجات آئیں گے ترک حکومت امداد کی صورت میں ادا کرے گی۔