تازہ ترین

کچے کے ڈاکوؤں کو اسلحہ فراہم کرنیوالے 3 پولیس افسران سمیت 7 گرفتار

کراچی : پولیس موبائل میں جدید اسلحہ سندھ اسمگل...

پاکستان کو آئی ایم ایف سے 6 ارب ڈالر قرض پروگرام کی توقع

وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ...

اسرائیل کا ایران پر فضائی حملہ

امریکی میڈیا کی جانب سے یہ دعویٰ سامنے آرہا...

’خواتین و حضرات! ہم نے انہیں دھر لیا ہے!‘

عراق میں امریکی انتظامیہ کے سربراہ پال بریمر نے ایک پریس کانفرنس میں‌ صدام حسین کی گرفتاری کا اعلان کیا تھا اور اس دوران انھوں نے کہا تھا، ’خواتین و حضرات! ہم نے انہیں دھر لیا ہے۔‘

بریمر نے اس پریس کانفرنس میں اسے عراق کی تاریخ کا ایک ’عظیم دن‘ بھی قرار دیا تھا۔

صدام حسین کی گرفتاری کے اگلے روز 14 دسمبر 2003ء کو یہ پریس کانفرنس کی گئی تھی جس میں گرفتاری کو امریکا اور اس کے اتحادیوں کی بڑی کام یابی بتایا گیا اور اس کا جشن بھی منایا گیا، لیکن بعد کے برسوں میں عراق جنگ کو بش انتظامیہ کی غلطی اور ‘منہگی مہم جوئی’ کہہ کر اس جنگ کے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کرنے کا مطالبہ بھی کیا گیا۔ عراق میں امریکی افواج کے داخلے کے بعد مفرور صدام حسین کو آج ہی کے دن ان کے آبائی شہر تکریت کے ایک مقام پر تہ خانے سے گرفتار کیا گیا تھا، وہ کئی روز سے اس جگہ چھپے ہوئے تھے۔

بعد میں صدام حسین پر عراقی عدالت میں مقدمہ چلایا گیا اور پھانسی دے دی گئی۔

حملے کی بنیادی وجہ تو وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے وہ ہتھیار تھے جس نے بالخصوص نائن الیون کے بعد عراق کو ‘سرکش ریاست’ اور اس کے سربراہ صدام حسین کو عالمی امن کے لیے ‘خطرہ’ بنا دیا تھا۔ لیکن جنگ کی آگ ٹھنڈی ہوتی چلی گئی اور ان ہتھیاروں کا کوئی سراغ نہیں ملا۔

دنیا بھر میں انسانی حقوق کی تنظیمیں، دانش ور اور عراق کے عوام بھی ‘سپر پاورز’ کی طرف دیکھتے رہے کہ صدام کی گرفتاری کے بعد وہ کب عراق میں خطرناک ہتھیاروں تک پہنچیں‌ گے اور انھیں ‘عالمی امن’ کی خاطر تلف کردیا جائے گا، لیکن ایسا کوئی اعلان نہیں‌ کیا گیا۔

یادش بخیر، ایران میں اسلامی انقلاب اور امریکا مخالف اقتدار کے بعد جب صدام حسین نے سنہ 1980ء میں ایران کے ساتھ جنگ چھیڑی تھی تو کون جانتا تھا کہ یہ لڑائی آٹھ سال تک جاری رہے گی اور دس لاکھ انسان اس کی بھینٹ چڑھ جائیں گے۔ لیکن اس وقت یہ ضرور کہا جانے لگا تھا کہ صدام حسین کو امریکا کی خاموش حمایت حاصل ہے اور جنگ میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کو نظرانداز کیا جارہا ہے۔ کئی برس بعد اسی صدام حسین کو امریکا نے تخت سے اتار کر تختۂ دار پر پہنچا دیا۔

صدر بش کی حکومت میں اس کارروائی کو دنیا نے اخلاقی طور پر درست تسلیم نہیں کیا بلکہ امریکا اور برطانیہ میں ہی اس کے خلاف زبردست مظاہرے نہیں کیے گئے بلکہ دنیا بھر میں‌ بش انتظامیہ کی زور دار مخالفت ہوئی۔ یہ بات بھی قابلِ‌ ذکر ہے کہ امریکا میں صدر بش کی صدارتی انتخابات میں کام یابی کے بعد ہی عراق میں تبدیلیٔ حکومت کی باتیں عام ہونے لگی تھیں۔

امریکی صدر بش اور ان کے بڑے اتحادی برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر کی حکومت کا دعوٰی تھا کہ صدام حسین وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار حاصل کر رہے ہیں جو خطّے میں مغربی مفادات کے لیے نقصان دہ ہیں اور اسی بنیاد پر 2003ء میں اتحادی فوج نے عراق پر حملہ کر دیا۔

رواں برس مئی میں اس وقت دل چسپ صورتِ‌ حال پیدا ہوگئی جب سابق امریکی صدر جارج ڈبلیو بش روس اور یوکرین جنگ پر گفتگو کررہے تھے کہ ان کی زبان پھسل گئی اور وہ عراق پر امریکی حملے کو ’غیر مصنفانہ، بلاجواز اور وحشیانہ حملہ‘ قرار دے بیٹھے۔ میڈیا کے مطابق وہ روانی میں کہہ گئے کہ ’یہ روس میں مؤثر احتسابی نظام نہ ہونے کی وجہ سے ہے اور عراق پر مکمل طور پر غیر منصفانہ، بلاجواز اور وحشیانہ حملہ کرنا ایک شخص کا فیصلہ ہے۔‘ تاہم سابق صدر کو فوراً غلطی کا احساس ہوگیا اور اپنے جملے کی تصحیح کرتے ہوئے بولے، ’میرا مطلب یوکرین تھا۔‘

عراق میں امریکا کا یہ آپریشن 2011ء تک جاری رہا۔ اس حملے میں‌ اور بعد کے برسوں میں عراق میں جھڑپوں اور مسلح گروہوں کی کارروائیوں میں ہزاروں عام شہری قتل ہوئے۔ امریکا دنیا کو نائن الیون کی سازش میں عراق کے کردار اور اپنے ملک میں کارروائی سے اس کے تعلق پر بھی دنیا کو مطمئن نہیں کرسکا۔

صدام حسین کی بات کی جائے تو یہ کہا جائے گا کہ وہ عراق کے طویل عرصے تک مطلق العنان حکم راں رہے اور نہایت ہنگامہ خیز زندگی گزاری۔ صدام حسین کا غیرمصالحانہ طرزِ حکومت بھی عراق کو دنیا میں نمایاں کرتا رہا۔ جوانی میں صدام حسین بعث پارٹی سے وابستہ ہوگئے تھے اور 1956ء میں جنرل عبدالکریم قاسم کے خلاف ایک ناکام بغاوت میں بھی حصّہ لیا۔ انھوں‌ نے اپنے دورِ‌ حکومت میں ایران کے ساتھ جنگ چھیڑی اور بعد میں‌ کویت پر حملہ کیا۔

عراق کے صدر پر عائد کردہ الزامات اور ان کے جرائم کی فہرست میں کردوں کو زہریلی گیس سے ہلاک کرنا بھی شامل تھا۔ اس کے علاوہ انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں‌ اور ملک میں‌ اپنے مخالفین پر تشدد اور انھیں موت کے گھاٹ اتارنے کے لیے بھی وہ مشہور رہے۔

دسمبر ہی میں‌ صدام حسین کو تختۂ دار پر کھینچا گیا تھا اور اس کے بعد سابق امریکی صدر جارج بش کو یہ کہنا پڑا کہ عراق حملہ غلطی تھی اور سب کچھ حقیقت پر مبنی نہیں تھا۔

عراق میں امن وامان کی صورتِ حال اب بھی بہتر نہیں‌ ہے اور سیاسی جماعتیں کم زور اور بٹی ہوئی ہیں جب کہ انتہا پسند اور مختلف مسلح گروہ بھی مرکزی حکومت کے لیے مسئلہ بنے رہتے ہیں۔

امریکا نے عراق پر 2003ء میں حملہ کیا تھا، مارچ کی ایک صبح بغداد پر بم باری کے بعد امریکی صدر بش نے دنیا کے سامنے عراق پر حملے کا اعلان کیا تھا۔ امریکا کو اس کارروائی پر حلیف ممالک کا دباؤ بھی تھا، جب کہ جرمنی اور فرانس نے عراق پر فوجی کارروائی کی مخالفت کی تھی۔

عراقی صدر کی گرفتاری کے ساتھ ہی عالمی میڈیا نے دکھایا کہ عراق میں‌ مختلف مقامات پر صدام حسین کی تصاویر کو پھاڑا جارہا ہے اور عوام ان سے نفرت کا اظہار کرتے ہوئے ان بڑے بڑے مجسموں کو ڈھا رہے ہیں۔

چند تصاویر میں امریکی فوجیوں کو بھی صدام حسین کے مجسمے میں ان کے چہرے پر امریکی پرچم لپیٹتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔

Comments

- Advertisement -